فغان رومی |
ہم نوٹ : |
|
از مناجات خاتمِ مثنوی ۱۹؍ذوقعدہ ۱۴۱۳ ھ مطابق ۱۱؍مئی ۱۹۹۳ ء بروز منگل ،بعد نمازِمغرب ،بمقام خانقاہ امدادیہ اشرفیہ، گلشن اقبال ۲، کراچی اے خدا ساز ندۂ عرشِ بریں شام را دادی تو زلفِ عنبریں اے خدا! اے عرشِ عظیم کے خالق ! وہ عرشِ عظیم جو سارے عالم پر محیط ہے اور ساتوں آسمان اور کرسی جس کی وسعت میں مثل ایک حلقۂ انگشتری کے ہیں ایسی عظیم الخلقت مخلوق کے پیدا کرنے والے اللہ! آپ نے شام کو زلفِ عنبریں عطا فرمائی جس کی تاریکی میں نصف شب کے بعد آپ کے عاشقوں کو آپ کی خوشبوئے قرب ملتی ہے اور لذتِ عبادت ومناجات میں ترقی عطا ہوتی ہے۔ مولانا نے صاحبِ عرشِ عظیم کی عظمت بیان کرنے کے لیے عرشِ اعظم کا تذکرہ فرمایا اور خوشبوئے قربِ محبوب کی رعایت سے شام کو زلفِ عنبریں سے تشبیہ دی۔ روز را باشمع کافور اے کریم کردۂ روشن تر ا ز عقلِ سلیم اے کریم! آپ نے دن کو شمعِ آفتاب سے ایسا روشن کردیا جس کی روشنی اس لحاظ سے عقلِ سلیم سے زائد ہے کہ اس میں اشیاء بداہتاًنظر آجاتی ہیں جبکہ عقلِ سلیم کو حقیقتِ اشیاء تک رسائی کے لیے دلائل وبراہین واستدلال کا سہارا لینا پڑتا ہے اور عقلِ سلیم پر دن کی یہ فضیلت مِنْ بَعْضِ الْوُجُوْہِ ہے مِنْ کُلِّ الْوُجُوْہِ نہیں کیوں کہ دن اور عقلِ سلیم دونوں آپ کی مخلوق ہیں اس لیے من بعض الوجوہ نورِ عقل کو نورِ آفتاب پر فضیلت حاصل ہے مثلاً: عقلِ سلیم دلائل واستدلال سے وجودِ باری تعالیٰ کا ادراک کرتی ہے جبکہ دن کی روشنی یہ استدلال نہیں کرسکتی نہ دوسروں کو قائل کرسکتی ہے۔