فغان رومی |
ہم نوٹ : |
|
درسِ مناجاتِ رُومی ۱۵؍ذوقعدہ ۱۴۱۱ ھ مطابق ۲۹؍مئی ۱۹۹۱ ء بروز بدھ،بعد نمازِ عشاء، بمقام خانقاہ امدادیہ اشرفیہ، گلشن اقبال ۲، کراچی گویم اے رب بارہا برگشتہ ام توبہ ہا و عذر ہا بشکستہ ام ارشاد فرمایا کہ برگشتہ معنیٰ پھر جانا، بہک جانا یعنی بے وفائی کرنا۔ فرمایا کہ یہ شعر زبانی یاد کرنے کے ہیں چاہے تھوڑا پڑھو مگر زبانی یاد کرلو، کیوں کہ دُعا میں یہ بڑا درد پیدا کرتے ہیں۔ اے میرے رب! میں آپ سے عرض کررہا ہوں کہ بارہا آپ کی راہ سے برگشتہ ہوچکا ہوں یعنی نفس وشیطان کے کہنے میں آکر آپ کی چوکھٹ کی جبیں سائی چھوڑ کر نفس وشیطان کی غلامی میں آگیا اور حرام اور خبیث لذتوں کے پیچھے پڑگیا اور آپ سے بے وفائی کی۔ بندے کی بے وفائی اللہ تعالیٰ سے کیا ہے ؟کہ اس کی نافرمانی کی راہ سے حرام لذت کو در آمد کرنا، اللہ کو ناخوش کرکے اپنا جی گناہوں سے خوش کرنا۔ تو اے میرے رب! میں نادم ہو کر آپ سے اقرار کرتا ہوں کہ میں بارہا آپ کی نافرمانی میں مبتلا ہوا اور آپ کو ناراض کرکے بارہا عہدِ وفا کو توڑا اور آپ کے قُرب سے محروم ہوا، جب کہ صحابہ کی شان یہ تھی کہ جان دے دیتے تھے مگر آپ کو ناراض نہیں کرتے تھے شہید ہوجاتے تھے مگر کسی طرح سے خود کو آپ کی نافرمانی کی بزدلی میں مبتلا نہیں ہونے دیتے تھے اور شہید ہوکر بزبانِ حال یہ شعر پڑھتے تھے کہ ؎ جو تجھ بِن نہ جینے کو کہتے تھے ہم سو اس عہد کو ہم وفا کر چلے مولانا رُومی فرماتے ہیں کہ ہم نے بارہا تو بہ کی کہ اب یہ گناہ نہیں کریں گے اور بارہا عذر خواہی کی کہ اے اللہ! اس دفعہ ہم مغلوب ہوگئے آیندہ ایسی غلطی نہیں کریں گے لیکن پھر