فغان رومی |
ہم نوٹ : |
|
درسِ مناجاتِ رُومی ۴؍شعبان المعظم ۱۴۱۱ ھ مطابق ۲۰؍فروری ۱۹۹۱ ء بروز بدھ ،بعد نمازِ عشاء، بمقام خانقاہ امدادیہ اشرفیہ، گلشن اقبال ۲،کراچی از ہمہ نو مید گشتیم اے خدا اوّل و آخر توئی و منتہا ارشاد فرمایا کہ مولانا رُومی بارگاہِ خداوندی میں عرض کرتے ہیں کہ میں تمام عالمِ اسبا ب سے نااُمید ہوچکا ہوں اے خدا! آپ اوّل بھی ہیں اور آخر بھی ہیں اور آپ ہی ہماری منتہا اور ہمارا آخری دروازہ ہیں۔ اگر آپ ہمیں مایوس کردیں تو پھر ہمارا کہیں کوئی ٹھکانہ نہیں۔ آپ ہماری آخری اُمید گاہ ہیں۔ جہاں سارے پردۂ اسباب جل جائیں اور دنیا کی ساری تدابیر ختم ہوجائیں تو اے اللہ! آپ ہی سے ہماری اُمید قائم رہتی ہے۔ حضرت سلطان ابراہیم بن ادہم سلطنتِ بلخ چھوڑ کر اللہ کی محبت میں دریائے دجلہ کے کنارے اشکبار آنکھوں سے اللہ اللہ کررہے تھے کہ ایک شخص پُل سے دریا میں جھانکتے ہوئے اچانک گر پڑا، دریا میں سیلاب تھا، بظاہر اس کے بچنے کا کوئی سامان نہ تھا کہ اچانک حضرت سلطان ابراہیم ابن ادہم رحمۃ اللہ علیہ کے منہ سے نکل گیا کہ یا اللہ! اس کو بچا۔ جانے کس خاص کیفیت کے ساتھ کہا۔ بس فوراً وہ اللہ کا بندہ پُل اور دریا کے درمیان معلق ہوگیا، اللہ کی بے شمار غیر مرئی مخلوق ہے، فرشتوں کی اور جنات کی بے شمار فوج ہے جو ہمیں نظر نہیں آتی ، جس کو چاہیں حکم دے دیں، لوگوں نے جب دیکھا کہ اللہ کا ایک بندہ عجیب انداز سے ہوا میں معلق کھڑا ہے تو اُوپر سے رسی لٹکا کر اسے نکال لیا۔ اللہ کی غیبی مدد کا ایک اور واقعہ سن لیجیے اور یہ بمبئی کا واقعہ ہے جو حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم نے سنایا کہ ایک مرتبہ حاجیوں کو لے جانے والا آخری ہوائی جہاز بمبئی سے پرواز کرگیا اور تین حاجی تھوڑی سی تاخیر کے سبب رہ گئے ، جب انہوں نے دیکھا کہ فلائٹ نکل گئی تو رونے لگے، حالتِ احرام میں تھے، بس مصلّٰی بچھایا اور صلوٰۃِ حاجت پڑھ کر رونا شروع کردیا کیوں کہ وہ آخری جہاز تھا۔ اسی جہاز