فغان رومی |
ہم نوٹ : |
|
درسِ مناجاتِ رُومی ۷؍شعبان المعظم ۱۴۱۱ ھ مطابق ۲۳؍ فروری ۱۹۹۱ ء بروز ہفتہ،بعد نمازِ عشاء، بمقام خانقاہ امدادیہ اشرفیہ، گلشن اقبال ۲،کراچی دست من ایں جا رسید ایں را بشست دستم اندر شستنِ جان ست سُست ارشاد فرمایا کہ مولانا رُومی اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں کہ میرا ہاتھ گناہ کے کاموں میں ملوث ہو کر نجس ہوگیا ، اب آپ اپنے آبِ عفو ومغفرت سے اسے دھوکر پاک کردیجیے،کیوں کہ میں اپنی پاکی اور تزکیہ میں انتہائی کاہل اور سست ہوں۔ یعنی میں نے تو گناہوں سے اپنے باطن کو ناپاک کرلیا اب آپ توفیق ِتوبہ دے کر اور اپنی رحمت سے معاف فرما کر اسے پاک کردیجیےکیوں کہ اگر آپ کی توفیق شاملِ حال نہ ہو تو میں اپنے تزکیہ کے باب میں انتہائی غافل اور لاپروا ہوں۔ آپ کے فضل ورحمت ومشیت کے بغیر میرا تزکیہ محال ہے۔ اور اس شعر کا ایک ترجمہ اور بھی ہے جو زیادہ جامع ہے ۔ رسید اور بشست دونوں ماضی مطلق ہیں تو معنیٰ یہ ہوئے کہ میرا ہاتھ یہاں تک پہنچ گیا اور اس کو دھودیا یعنی ظاہری نجاست اور گندگی کو اس نے صاف کردیا لیکن گناہوں سے جو میری رُوح نجس ہوگئی اس کو میں صاف نہیں کرسکتا کیوں کہ رُوح تک میرا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا۔ میرا ہاتھ رُوح کو پاک کرنے میں سست ہے یعنی قادر نہیں ہے۔ جسم ناپاک ہوتا ہے پیشاب پاخانے سے اور روح ناپاک ہوتی ہے گناہوں سے اور گناہوں کی غلاظت اور گندگی پیشاب پاخانہ سے بدتر ہے کیوں کہ پیشاب پاخانے کی نجاست تو پانی سے دور ہوجاتی ہے لیکن رُوح کی نجاست توبہ کے بغیر نہیں دھلتی اور توبہ کے لیے نفس مشکل سے راضی ہوتا ہے ۔ سست کے معنیٰ یہ بھی ہیں کہ میرا نفس توبہ کرنا نہیں چاہتا۔ شیطان گناہوں کا نشہ پلا دیتا ہے، اور گناہ کا مزہ جب منہ کو لگ جاتا ہے اور نفس کو گناہ کی عادت پڑجاتی ہے تو مشکل سے چھوٹتی ہے، جیسے سگریٹ اور ہیروئن کا عادی کہ جب تک اس کو نہ ملے بے چین