فغان رومی |
ہم نوٹ : |
|
درسِ مناجاتِ رُومی ۱۱؍شعبان المعظم ۱۴۱۱ ھ مطابق ۲۷ ؍فروری ۱۹۹۱ ء بروز بدھ،بعدنمازِ عشاء، بمقام خانقاہ امدادیہ اشرفیہ، گلشن اقبال ۲، کراچی اندراں کارے کہ ثابت بودنی ست قائمی دہ نفس را کہ منثنی ست ارشاد فرمایا کہ مولانا رُومی دُعا کرتے ہیں کہ جس کام کے اندراستقامت مطلوب ہے اے خدا !اس میں ہمارے نفس کو استقامت دیجیے کیوں کہ اپنی خصلت کے اعتبار سے اس میں ازاغت ، کجی اور ٹیڑھا پن ہے اور یہ کجی اور ازاغت کو پسند کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ؎ یعنی نفس اپنی فطرت کے اعتبار سے کَثِیْرُ الْاَمْرِ بِالسُّوْءِ؎ہے، شَدِیْدُ الْمَیْلَانِ اِلَی الْخَطَاءِ ہے، ہر وقت بُرائی کو کہتا رہتا ہے ، اگر موقع پاجائے تو ایک بُرائی کو اور ایک گناہ کو نہ چھوڑے خواہ چھوٹا گناہ ہو یا بڑا گناہ ، پُرانا گناہ ہو یا نیا گناہ ۔ اب اگر کوئی کہے کہ جب قرآنِ پاک نازل ہورہا تھا اس زمانے میں فلم ، سینما ، ٹی وی ، وی سی آر اور ڈش کہاں تھے، مولوی زبردستی ان چیزوں کو منع کرتے ہیں تو جواب یہ ہے کہ اَلسُّوْءمیں الف لام جنس کا ہے اور جنس وہ کُلّی ہے جو انواع مختلف الحقائق پر مشتمل ہو جس کا مطلب یہ ہوا کہ سُوْءیعنی بُرائی اور گناہ کی جتنی قسمیں زمانۂ نزولِ قرآن سے لے کرقیامت تک پیدا ہوں گی وہ سب اس اَلسُّوْءمیں داخل ہیں۔ لہٰذا سُوْءکی تمام انواع ِ ماضیہ حالیہ ومستقبلہ اس میں شامل ہوگئیں، یعنی گناہوں کے جتنے انواع واقسام تھے اور ہیں اور آیندہ ایجاد ہوں گے سب اس میں آگئے ۔یہی دلیل ہے کہ یہ کلام اللہ کا ہے کہ ماضی حال واستقبال تک کے تمام گناہوں کا اس میں احاطہ ہوگیا۔ ------------------------------