فغان رومی |
ہم نوٹ : |
|
درسِ مناجاتِ رُومی ۱۷؍ ذوقعدہ ۱۴۱۳ ھ مطابق ۹؍مئی ۱۹۹۳ ء بروز اتوار،بعد نمازِ مغرب، بمقام خانقاہ امدادیہ اشرفیہ، گلشن اقبال ۲، کراچی قطرۂ دانش کہ بخشیدی ز پیش متصل گرداں ز دریا ہائے خویش اے اللہ! علم کا وہ قطرہ جو آپ نے اپنی طرف سے مجھے بخشا ہے، اس کا اتصال اپنے غیر محدود دریائے علم سے فرمادیجیے یعنی میرے محدود علم کو اپنے علم لامحدود سے ملادیجیے تاکہ میرا وہ قطرۂ علم صرف کُتب بینی تک محدود نہ رہے بلکہ قُطب بینی سے مشرف ہو کر آپ کے غیرمحدود دریائے علم سے متصل ہوجائے۔ جو لوگ صرف کتب بینی سے علم کے حروف اور نقوش حاصل کرتے ہیں ان کے علم کی مثال حوض کی سی ہے جس کا پانی ایک دن ختم ہوجائے گا،اور جو لوگ کُتب بینی کے ساتھ قُطب بینی بھی کرتے ہیں یعنی رسمی علومِ ظاہرہ کی تحصیل کے ساتھ کسی صاحبِ نسبت کی صحبت میں رہ کر اللہ کی محبت حاصل کرتے ہیں، اپنے نفس کی اصلاح کراتے ہیں، گناہوں سے بچنے میں ہر مجاہدہ ومشقت کو ، ہر غم کو برداشت کرتے ہیں ان کے علم کی مثال ایسی ہے جیسے کنویں کی گہرائی میں زمین کے اندر سے سوتہ پھوٹ جائے تو اب اس کا پانی کبھی ختم نہیں ہوگا ۔ پس جب کوئی عالم کسی اللہ والے کی صحبت کی برکت سے صاحبِ نسبت ہوجاتا ہے تو اس کے قطرۂ علم کا اتصال حق تعالیٰ کے غیر محدود دریائے علم سے ہوجاتا ہے اور اس کا علم کبھی ختم نہیں ہوتا۔ عالمِ غیب سے اس کے قلب پر ایسے علوم وارد ہوتے ہیں کہ کتب بینی والے حیرت میں رہ جاتے ہیں کہ یہ علوم اس کو کہاں سے آرہے ہیں جو ہم نے کتابوں میں نہیں پڑھے۔ ان اہلِ ظاہر کو پتا نہیں کہ اس کے علم کا خفیہ رابطہ کس غیر محدود دریائے علم سے ہے۔ مولانا فرماتے ہیں ؎