فغان رومی |
ہم نوٹ : |
|
درسِ مناجاتِ رُومی ۱۸؍ذوقعدہ ۱۴۱۳ ھ مطابق ۱۰؍مئی ۱۹۹۳ ء بروز دوشنبہ ، بعد نمازِ مغرب،بمقام خانقاہ امدادیہ اشرفیہ، گلشن اقبال ۲، کراچی شد صفیرِ بازِ جاں در مرجِ دیں نعرہ ہائے لَاۤ اُحِبُّ الۡاٰفِلِیۡن ارشاد فرمایا کہدین کی شکار گاہ میں باز شاہی یعنی جاں بازِ الٰہی کی آواز مثل حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلاۃ والسلام لَاۤ اُحِبُّ الۡاٰفِلِیۡنَ کے نعرے ہیں کہ میں فنا ہونے والوں سے محبت نہیں کرتا اور سوا ئے اللہ کے کسی اور کی طرف رُخ نہیں کرتا اور بجز رضائے الٰہی کسی چیز کو محبوب نہیں رکھتا، اور نعروں سے مراد محض زبانی نعرے نہیں بلکہ غیر اللہ سے عملی اعراض اور قول مقرون بالعمل ہے لہٰذا شاہ بازِ حق، جاں بازِ الٰہی اور عاشقِ حق سے یہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ کو چھوڑ کر فانی شکلوں پر مرنے لگے اور مثل گدھ کے مُردہ لاشوں کو کھانے لگے اور جس طرح بازِ شاہی مُردہ جانوروں کی لاشوں سے صَرف نظر کرتا ہوا صرف زندہ شیر کا شکار کرتا ہے اسی طرح عاشقِ حق دنیائے مردار اور حسنِ فانی کی طرف رُخ کرنا اپنی توہین سمجھتا ہے اور صرف زندہ حقیقی حَیٌّ وَقَیُّوْم تعالیٰ شانہٗ کی ذات پاک اس کا محبوب ومطلوب ومقصود ہے۔ باز دل را کز پئے تو می پرید از عطائے بے حدت چشمے رسید مولانا رُومی اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں کہ بازِ قلب جو آپ کے لیے آپ کی طرف اُڑ رہا تھا اور آپ کی رضا کے اعمال کے اختیار کرنے اور غیر رضا کے اعمال سے بچنے کے مجاہدات کررہا تھا آپ کے کرمِ غیر محدود کے صدقے میں اس کو چشمِ بینا عطا ہوگئی یعنی اہل اللہ کی مصاحبت، ذکر اللہ پر مداومت ، گناہوں سے محافظت ، اسبابِ گناہ سے مباعدت اور سنت