فغان رومی |
ہم نوٹ : |
|
اور صحت وعافیت وغیرہ اس تمام رزقِ ظاہری وباطنی کے پیچھے آپ کا لطف پوشیدہ ہے، ان عنایاتِ ظاہرہ کا سبب آپ کا لطفِ مخفی ہے، آپ کی ظاہری مہربانی کا سبب آپ کی پنہاں مہربانی ہے، ہمارے اعمال نہیں ہیں۔ میرا شعر ہے ؎ مری بے تابئ دل میں ان ہی کا جذب پنہاں ہے مرا نالہ ان ہی کے لطف کا ممنونِ احساں ہے آپ کی یاد میں ہماری بے تابی واشکباری آپ کے جذبِ کرم ہی کی ممنونِ احسان ہے۔ غرض آپ کے جو الطاف وعنایات ہم پر ظاہر ہوتے ہیں وہ آپ کی مخفی عنایات کا عکس اور پرتو ہیں جیسے ہم لوگ کسی پر کوئی احسان اور شفقت کرنا چاہتے ہیں تو پہلے دل میں محبت کا ایک پوشیدہ احساس ہوتا ہے، پھر وہ شفقت کسی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ پہلے قلب میں محبت آتی ہے پھر اس کا ظہور قالب سے ہوتا ہے۔ تو جب مخلوق کے اندر یہ خاصیت ہے کہ ہمارا لطفِ ظاہر ہمارے لطفِ باطن کا نتیجہ ہوتا ہے تو اے اللہ!آپ کی جو ظاہری مہربانیاں اور انعامات ہم پر ہیں وہ آپ کے لطفِ مخفی اور پوشیدہ کرم کے عکاس کیوں نہ ہوں گے ۔ پہلے اللہ کا ارادہ ہوتا ہے جو مخلوق سے مخفی ہوتا ہے، پھر ان کے انعامات وعنایات کا ظہورہوتا ہے۔ اس کا سبب ہمارے اعمال وعبادات اس لیے نہیں ہوسکتے کیوں کہ اللہ کی عظمتِ غیر محدود کا حق ہمارے ناقص ومحدود اعمال سے ادا نہیں ہوسکتا، لہٰذا اللہ کی عطا کے لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ہمارے فلاں مجاہدے کی وجہ سے ملی ہے یا ہم نے اتنے سال بزرگوں کی صحبت اُٹھائی ہے یا ہم نے اتنی محنتیں کی ہیں تب ہمیں یہ سب ملا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عنایات کو اپنے اعمال کی طرف منسوب کرنا ناشکری ہے جیسا کہ حکیم الاُمت نے تفسیر ’’بیان القرآن‘‘کے حاشیہ میں فرمایا: فَاِنَّ بَعْضَ الْمُغْتَرِّیْنَ الْمُعْجِبِیْنَ یُنْسِبُوْنَ کَمَالَاتِہِمْ اِلٰی مُجَاہَدَاتِہِمْ وَہُوَ عَیْنُ الْکُفْرَانِ؎ بعض نادان صوفی اپنے کمالات کو اپنے مجاہدات کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ ہم نے ------------------------------