فغان رومی |
ہم نوٹ : |
|
درسِ مناجاتِ رُومی ۱۲؍ذوقعدہ ۱۴۱۳ ھ مطابق ۴؍مئی ۱۹۹3 ء بروز منگل،بعد نمازِمغرب ، بمقام خانقاہ امدادیہ اشرفیہ، گلشن اقبال ۲، کراچی اے کمینہ بخششت ملکِ جہاں من چہ گویم چوں تو می دانی نہاں ارشاد فرمایا کہیہاں اے کا منادیٰ محذوف ہے یعنی اے خدا! یہ ملکِ جہاں آپ کی ادنیٰ بخشش ہے یعنی زمین وآسمان،سورج اور چاند،سمندر اور پہاڑ، ستارے اور کہکشاں پوری کائنات آپ کا ایک معمولی سا انعام ہے، ہمارے لیے تو یہ عظیم تر ہے مگر آپ کے لیے حقیر تر ہے۔ یہ دو نسبتیں ہیں ، جب نسبت اللہ کی طرف ہوگی تو ان کی عظمتِ شان کے مقابلے میں یہ کائنات اللہ کی ایک معمولی سی عطا ہے کیوں کہ وہ خالق ہے، لیکن جب بندوں کی طرف نسبت ہوگی تو ہمارے لیے یہ عظیم تر ہے کیوں کہ ہم کائنات کا ادنیٰ سے ادنیٰ جز مثلاً ایک ذرہ اور ایک پتا تک پیدا نہیں کرسکتے، لہٰذااے خدا! یہ پورا ملکِ جہاں آپ کی عظمتِ شان کے مقابلے میں ایک ادنیٰ سی بخشش ہے۔ یہ ترجمہ ملّائےخشک نہیں کرسکتاسوائے اہل اللہ کی جوتیاں اُٹھانے والوں کے۔ یہاں اگر عظمتِ شان کا مقابلہ نہیں کہیں گے تو اللہ کی صفتِ تخلیق کی تحقیر ہوجائے گی، لہٰذا یہ جملہ میں اپنے بزرگوں کی دُعاؤں کا صدقہ سمجھتا ہوں کہ اے خدا!یہ پورا ملکِ جہاں زمین وآسمان، سورج اور چاند ساری کائنات آپ کی عظمتِ شان کے سامنے ایک حقیر مخلوق ہے ؎ من چہ گویم چوں تو می دانی نہاں میں آپ سے کیا کہوں جبکہ آپ سب پوشیدہ باتوں کو بھی جانتے ہیں ؎ حال ِ ما ایں خلائق سر بسر پیشِ لطفِ عام تو باشد ہدر ہمارا حال اور پوری مخلوق کا حال یعنی زمین وآسمان ، سمندر اور پہاڑ ، سورج اور چاند، ستاروں اور