فغان رومی |
ہم نوٹ : |
|
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِعرضِ مرتب اَلْحَمْدُلِلہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی ، اَمَّا بَعْدُ سات سو سال پہلے حضرت شمس الدین تبریزی کے سینے کی آگ جو حضرت جلال الدین رومی کے سینے میں منتقل ہوئی اور آتش فشاں بن کر مثنوی کی صورت میں زبانِ رومی سے برآمد ہوئی، اس کی شرح سات سو برس بعد اس زبان مبارک سے ہوئی جس کو عصرِ حاضر کے بڑے بڑے علماء حتیٰ کہ ایران کے صاحبِ زبان اہلِ حق علماء نے بھی رُومی ثانی کا لقب دیا ہے اور جن کی آتشِ درد اورآہِ دل عصرِ حاضر کے شمس تبریزی حضرت شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کی روشن کردہ وپروردہ ہے، جیسا کہ شارحِ مثنوی حضرت مُرشدی دامت برکاتہم نے خود فرمایا ہے کہ ؎ آہِ من پروردۂ آہِ شما دردِ من پروردۂ دردِ شما ترجمہ : اے شاہ عبد الغنی! میری آہ آپ کی آہوں کی تربیت یافتہ اور میرا درد آپ کے درد کا پرور دہ ہے۔ پیش نظر کتاب ’’فُغانِ رُومی‘‘مولانا جلال الدین رُومی کے مناجاتیہ اشعار کی درد بھری شرح ہے جو مُرشدی ومولائی عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم نے فرمائی ہے ۔ یہ خالی لفظی شرح نہیں ہے بلکہ حضرت والا کی وہ آتشِ دردِ دل ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت والا کو خاص فرمایا اور جو اُمت میں خال خال ہی کو عطا ہوئی بلکہ بلامبالغہ کہتا ہوں کہ اس دردِ دل میں اللہ تعالیٰ نے حضرت والا کو منفرد فرمایاہے۔ یہی وجہ ہے کہ مناجاتِ رُومی کی ایسی شرح آج تک نظر سے نہیں گزری اور شاید ہی کسی زبان میں موجود ہو، کیوں کہ جب ایسے قلوب ہی نایاب ہیں تو زبان کہاں سے آئے گی۔