فغان رومی |
ہم نوٹ : |
|
درسِ مناجاتِ رُومی ۱۰؍شعبان المعظم ۱۴۱۱ ھ مطابق ۲۶؍فروری ۱۹۹۱ ء بروز منگل، بعد نمازِ عشاء، بمقام خانقاہ امدادیہ اشرفیہ، گلشن اقبال ۲، کراچی اے کہ خاک شورہ را تو ناں کنی وے کہ نان مردہ را تو جاں کنی ارشاد فرمایا کہمولانا رُومی حق تعالیٰ کی عظمتِ شان ، قدرتِ قاہرہ اور تصرفاتِ عجیبہ بیان فرمارہے ہیں کہ اے خدا! آپ کی کیا شان ہے کہ شور یعنی کھاری اور بنجر مٹی کو آپ روٹی بنادیتے ہیں۔ گندم بھی دراصل مٹی ہے، کیوں کہ ایک دانۂ گندم کو مٹی کے نیچے ڈالا جاتا ہے تو اجزائے خاک مستحیل ہو کر ایک دانے سے ہزار دانے بن جاتے ہیں۔ اے اللہ! مٹی کو گندم میں تبدیل کرنا یہ آپ ہی کا تو کمال ہے ورنہ گندم کا جو دانہ بویا تھا اگر یوں ہی پڑا رہتا تو گل سڑ کر مٹی بن جاتا لیکن آپ کی قدرت سے وہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور پودوں کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔ پھر جب پودے بڑے ہوجاتے ہیں تو ان میں شاخیں پیدا ہوتی ہیں اور پھر ان شاخوں میں گندم کے خوشے لگتے ہیں جن میں دانے بھرے ہوتے ہیں ، پھر کھیتوں سے شہر میں لاکر ان کا آٹا بنتا ہے جس سے گھروں میں روٹی بنتی ہے، اس طرح اے اللہ!آپ مٹی کو روٹی بنادیتے ہیں۔اور روٹی ایک مُردہ چیز ہے لیکن اس کے کھانے سے ہماری جان قائم رہتی ہے ، تو بقائے رُوح کا ذریعہ آپ نے مُردہ کو رکھا ہے، یعنی جان کی بقا اور حفاظت غیر جان سے کی ہے، عقلاً زندہ کو زندہ رکھنے کے لیے زندہ چیز ہونی چاہیے تھی لیکن یہ آپ کی کتنی بڑی شان ہے کہ مردہ روٹی کھلا کر آپ زندہ کو زندہ رکھتے ہیں کہ اگر دس دن یہ غذائے مُردہ نہ ملے تو انسان مرجائے۔ اور اس مُردہ روٹی کو اے اللہ! پھر آپ جاندار کردیتے ہیں۔ یعنی ماں باپ اس روٹی کو کھاتے ہیں تو یہی روٹی خون بن جاتی ہے، پھر خون سے منی کی شکل میں مستحیل ہوجاتی ہے اور پھر اسی منی سے آپ انسان کو پیدا فرماتے ہیں ۔ پس معلوم ہوا کہ یہی