فغان رومی |
ہم نوٹ : |
|
پیشِ نظر ہو۔ خدا زور سے نہیں زاری سے ملتا ہے۔ اسی لیے مولانا رُومی نے فرمایا ؎ زور را بگزار زاری را بگیر رحم سوئے زاری آید اے فقیر زور چھوڑ دو اور آہ وزاری اختیار کرو۔ اللہ کو رحم آئے گا آہ وزاری سے ۔ یہ زور سے نہیں آئے گا کہ میں بڑا متقی ہوں، مقدس ہوں، میں ایسا کروں گا ویسا کروں گا، اگر دعویٰ کروگے تو رحمت سے محروم ہوجاؤ گے۔ لہٰذا زور چھوڑ و اور زاری اختیار کرو تاکہ اللہ کا اِلَّامَا رَحِمَ رَبِّیْ مل جائے اور نفس کے شر سے خدا اپنی حفاظت میں قبول فرمائے۔ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ میں جو رَحِمَ ہے جس کے صدقے میں نفوسِ انسانیہ حرکاتِ نفسانیہ اورآثارِ شیطانیہ سے محفوظ رہتے ہیں وہ رَحِمَ اگر لینا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اس آیت کی گویا تفسیر فرمائی اور اس رَحِمَ کو مانگنے کا جو مضمون عطا فرمایا وہ گویا حق تعالیٰ ہی نے عطا فرمایا ہے، کیوں کہ نبی اللہ تعالیٰ کا سفیر ہوتا ہے، اس کا ہر مضمون خدائے تعالیٰ کا ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ٭ وَ مَا نَہٰىکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا ۚ؎ جو ہمارا نبی تم کو عطا فرمائے اس کو لے لو یعنی جو حکم دے اس کو سر آنکھوں پر رکھو اور جس بات سے روک دے اس سے رُک جاؤ۔گویا اس آیت میں مذکورہ رحمت کو مانگنے کے لیے طریقہ اور مضمون اللہ تعالیٰ نے بزبانِ نبوت عطا فرمایا کہ اگر تم اِلَّا کے بعد مَارَحِمَ چاہتے ہو اور نفس کی بدمعاشیوں سے تحفظ چاہتے ہو تو یہ دُعا مانگو: یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ اَصْلِحْ لِیْ شَاْنِیْ کُلَّہٗ وَلَا تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ؎ اے زندہ حقیقی اور اےسنبھالنے والے! میں آپ کی رحمت سے فریاد کرتا ہوں کہ ------------------------------