فغان رومی |
ہم نوٹ : |
|
زیں حوالت رغبت افزا در سجود کاہلی و جبر مفرست و خمود اے خدا! ہم مجبور نہیں ہیں۔ یہ جو ہم نے اپنے کو آپ کے حوالے کیا ہے کہ ہم لاشےہیں اور آپ ہی سب کچھ ہیں، یہ آپ کی عظمتِ شان کا اعتراف اور اپنی حقارت وعاجزی وبے کسی پیش کی ہے، تاکہ آپ ہمیں نماز پڑھنے کی رغبت اور سجدوں کی لذت میں ترقی عطا فرمائیں۔ یہ دراصل لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ کا ترجمہ ہے۔ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مشکوٰۃ میں حدیث نقل کی کہ ایک بار حضرت عبد اللہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ نے لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ پڑھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ھَلْ تَدْرِیْ مَا تَفْسِیْرُھَا یعنی اے عبد اللہ ابنِ مسعود! اس لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّابِاللہِ کےمعنیٰ سمجھتے ہو؟ عرض کیا:اَللہُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ کا ترجمہ سن لو۔ سبحان اللہ ! نبی کے الفاظ ہیں اور نبی کے الفاظِ نبوت کی شرح الفاظِ نبوت سے ہورہی ہے۔ فرمایا کہ لَا حَوْلَ کے معنیٰ ہیں: لَاحَوْلَ عَنْ مَعْصِیَۃِ اللہِ اِلَّا بِعِصْمَۃِ اللہِ؎ یعنی ہم اللہ کی معصیت سے نہیں بچ سکتے جب تک کہ خود اللہ حفاظت نہ فرمائے، اللہ ہی کی حفاظت سے ہم گناہ سے بچ سکتے ہیں وَلَا قُوَّۃَ اَیْ وَلَاطَاقَۃَ عَلٰی طَاعَۃِ اللہِ اِلَّا بِعَوْنِ اللہِ؎ ہم اللہ کی عبادت نہیں کرسکتے جب تک اللہ مدد نہ فرمائے ۔ اس شعر میں مولانا نے یہی نفی کی ہے جو اس حدیث میں منقول ہے کہ صرف آپ کی توفیق کا سہارا ہے۔ جب جلال الدین رُومی نے اے خدا! اپنے کو آپ کے سپرد کردیا کہ ہم کچھ نہیں ہیں، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم مجبور ہیں بلکہ یہ اپنے ضعف وعجز کا اقرار ہے اور اللہ تعالیٰ سے رحم اور مدد کی درخواست ہے اور رحم کی درخواست جب ہی قبول ہوتی ہے جب اپنی طاقت سے صَرفِ نظر ہو اور اپنی حقارت ------------------------------