فغان رومی |
ہم نوٹ : |
|
نفس وشیطان ہم پر غالب آگئے اور ہزاروں عذر ومعذرت اور توبہ کو ہم نے توڑ دیا اور اس طرح بارہا اپنا منہ کالا کرچکے ہیں اور آپ کے غضب اور قہر کی راہوں سے لذت کی درآمدات کو عادت بنا رکھا ہے، مثلاً: توبہ کو توڑ کر ہم پھر حسینوں کو دیکھتے ہیں اور ان کا حرام نمک چکھ کر نمک حرام ہوجاتے ہیں ۔ نمک حرام کہتے ہیں کسی کی روٹی کھا کر اس کے خلاف کام کرنے والے کو۔ ہم لوگ اللہ تعالیٰ کے نمک خوار ہیں،ان ہی کا دیا ہوا رزق کھاتے ہیں، لہٰذا اللہ کا رزق کھا کرجو ذلیل کام کررہا ہے اور اللہ کاحرام کیا ہوا حسینوں کا نمک چکھ رہا ہے کیا یہ نمک حرامی نہیں ہے؟ بلکہ ایسا شخص تو دوہرا نمک حرام یعنی دوہرا مجرم ہے کہ اللہ کی نافرمانی کرکے اس نے اللہ کا حرام کیا ہوا نمک چکھا تو اسی وقت نافرمان اور بے وفا یعنی نمک حرام ہوگیا اور حسینوں کا نمک چکھنے کا جرم الگ، پس نمک حرام مثبت حرام نمک تو میزان میں حرام کا اضافہ ہوگا یا نہیں؟دیکھیے یہ ایک خاص تقریر ہے۔ مثنوی پڑھانے کے لیے خالی ترجمہ کرنا تو کوئی مشکل کام نہیں ہے، ترجمہ تو سب کرسکتے ہیں، بڑے بڑے فارسی داں یہاں بیٹھے ہیں مگر کراچی کے ایک بڑے عالم کے پاس ایران سے خط آیا تھا کہ ہندوستان وپاکستان میں سب سے بہتر مثنوی کون پڑھا سکتا ہے؟ تو ان عالم صاحب نے اپنے نیک گمان کی راہ سے میرا نام پیش کیا۔ یہ اللہ کا کرم اور احسان ہے کہ علماء کے دل میں یہ حسنِ ظن ہے ۔ مولانا رُومی فرماتے ہیں کہ لاکھ حرام لذتیں چراؤ ، لاکھ نمک چوری کرو یعنی لاکھ حسینوں کو دیکھو لیکن ؎ نیست آب شور درمان عطش پیاس کا علاج کھارا پانی نہیں ہے بلکہ کھارے اور نمکین پانی سے تو پیاس اور بڑھ جاتی ہے ۔ گناہ کھارا پانی ہے اور اللہ کی عبادت ، اللہ کی یاد میٹھا پانی ہے، لہٰذا اللہ کی فرماں برداری کا میٹھا پانی پیا کرو کیوں کہ گناہ کے کھارے پانی سے تم کو تسلی نہیں ہوگی، پیاس اور بڑھ جائے گی، تم اور بے چین ہوجاؤ گے۔ تم سمجھتے ہو کہ اس نمکین پانی سے تمہیں چین ملے گا لیکن حسینوں کی چمک دمک اور نمک نے کتنوں کو پاگل کردیا۔ لیلیٰ کالی تھی لیکن اس