فغان رومی |
ہم نوٹ : |
|
نیکیوں کا لفظ کیوں بڑھایا جارہا ہے کیوں کہ کفہ میزان کےمعنیٰ تو ترازو کے پلڑے کے ہیں یعنی ترازو کے پلڑے کو بھاری کردیجیے۔ یہاں نیکیوں کا کیا ثبوت ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ مولانا کا اسلوبِِ بیان قرآنِ پاک کی اتباع میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا فَاَمَّا مَنۡ ثَقُلَتۡ مَوَازِیۡنُہٗ جس سے مراد نیکیوں کا پلڑا بھاری ہونا ہے۔ تو مولانا رُومی عرض کرتے ہیں کہ ہمیں صبر عطا فرما کر ہماری نیکیوں کے پلڑے کو بھاری کردیجیے اوراس مکروہ صورت ، دشمن شیطان کے خبیث وسوسوں سے ہمیں خلاصی عطا فرمائیے جو ہمارے دل میں گناہوں کے تقاضوں کی پھونک مارتا ہے اور گناہوں کے خیالات ڈال کر سانپ کی طرح دل کو ڈستا رہتا ہے۔ لہٰذا اے اللہ ! اس خبیث کے وسوسوں اور اس کے مکر وفریب سے ہم کو بچائیے۔ و ز حسودے باز ما خر اے کریم تا نہ باشیم از حسد دیوِ رجیم اے کریم! اس حاسد اور دشمن شیطان سے ہم کو دوبارہ خرید لیجیے یعنی آپ تو ہمیں بار بار خریدتے رہتے ہیں اور اس کی غلامی سے چھڑاتے رہتے ہیں، لیکن ہم اپنی نالائقی اور کمینے پن سے پھر اس کی گود میں چلے جاتے ہیں اور بار بار گناہ کرتے ہیں۔ پس عدل کا تو تقاضا یہ تھا کہ ہم کو نفس وشیطان کے حوالے کردیا جاتا کہ جب تم شیطان کی بات مانتے ہو تو شیطان ہی کی گود میں رہو، لیکن چوں کہ آپ کریم ہیں، ہماری نااہلیت اور استحقاقِ سزا کے باوجود آپ محروم نہیں فرماتے، اس لیے آپ اپنے کرم سے ہم کو اس خبیث سے پھر خرید لیجیے یعنی ہمیں شیطان سے چھڑا لیجیے تا کہ ایسا نہ ہو کہ اس شیطان کے حسد سے ہم بھی مردود ہوجائیں یعنی بوجہ گناہوں کے آپ کی بارگاہِ قُرب سے نکال دیے جائیں۔ بہت سے ایسے لوگ جنہوں نے گناہ نہیں چھوڑا ان کا انجام بہت بُرا ہوا یعنی ان کی توفیقِ توبہ ہی سلب کرلی گئی اور بہت بُرا خاتمہ ہوا، لہٰذا گناہ سے دل کو مانوس مت کرو، اس حالت پر بہت روتے رہو، اپنی اس حالت کو خطرناک سمجھو۔جیسے بلڈ کینسر کا مریض اپنی صحت کے لیے اللہ سے بلبلا کے روتا ہے ایسے ہی اپنی رُوحانی صحت اور گناہوں کے کینسر سے نجات کے لیے اللہ تعالیٰ سے روتے رہو اور بزرگانِ دین سے دُعائیں کراؤ۔