فغان رومی |
ہم نوٹ : |
|
میں میرے شیخ بھی تھے۔ حضرت نے فرمایا کہ جہاز کو کراچی سے ہوتے ہوئے جدہ جانا تھا اور بمبئی سے کراچی ڈیڑھ گھنٹے کا راستہ ہے لیکن پندرہ منٹ کے بعد ہی شہر کی عمارتیں نظر آنے لگیں تو سب حیران رہ گئے کہ اتنی جلدی کراچی کیسے آگیا ! اتنے میں جہاز کے کپتان نے اعلان کیا کہ ہم دوبارہ بمبئی پہنچ رہے ہیں کیوں کہ جہاز میں کچھ فنی خرابی پیدا ہوگئی ہے۔ خیرجیسے ہی جہاز زمین سے لگا تو ایئر پورٹ کے عملے نے رونے والوں سے کہا کہ جلدی سے جا کر اپنی اپنی سیٹ پر بیٹھ جاؤ،کیوں کہ تمہارے ہی آہ ونالوں نے جہاز میں فنی خرابی پیدا کرادی اور جہاز کا رُخ بدل دیا۔ اسی لیے میرا ایک شعر ہے ؎ میراپیام کہہ دیا جاکے مکاں سے لا مکاں اے مری آہِ بے نوا تو نے کمال کردیا آہ کو کمزور مت سمجھو، یہ بڑی زبردست چیز ہے، ساتوں آسمان کو عبور کرلیتی ہے۔ اسی لیے مولانا رُومی اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں کہ اے خدا! ہم سارے عالم سے نااُمید ہوگئے لیکن آپ سے ہم نا اُمید نہیں ہیں، کیوں کہ آپ ہی اوّل ہیں اور آپ ہی آخر ہیں اورآپ ہی ہماری منتہا ہیں۔ اور اس تعریف اور حمد وثنا کی غرض یہ ہے کہ آپ کا وہ بندہ جو آپ کے ماسوا سے نااُمید ہے اب آپ اس کی نا اُمیدی کے بادلوں سے اُمید کا چاند طلوع فرمادیجیے، ہم کو عالمِ اسباب کے سپرد نہ کیجیے بلکہ آپ ہماری مدد کیجیے، کیوں کہ آپ کے علاوہ ہم ہر ایک سے مایوس ہوچکے ہیں، اپنے ارادوں کو اور اپنے دست وبازو کو ہزاروں بار آزما لیا کہ ہم آپ کے بن جائیں، لیکن نفس وشیطان کے تقاضوں سے مغلوب ہو کر ہم اپنے ارادوں کی شکست بارہا دیکھ چکے ہیں، جس سے اپنی پستی اور آپ کی عظمتوں کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ ہم اور ہمارے ارادے کچھ بھی نہیں ہیں۔ اگر آپ کا فضل نہ ہو تو ہم اپنے دست وبازو سے آپ تک نہیں پہنچ سکتے ، ہمارے ارادوں کی شکست آپ کی عظمتوں کا ثبوت ہے ؎ تیری ہزار رفعتیں تیری ہزار برتری میری ہر اک شکست میں میرے ہر اک قصور میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاارشاد ہے کہ عَرَفْتُ رَبِّیْ بِفَسْخِ الْعَزَائمِ؎ میں ------------------------------