ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2014 |
اكستان |
|
قسط : ٤ فرقہ واریت کیا ہے ، کیوںہے اور سدِّباب کیا ہے ؟ ( حضرت مولانا منیر اَحمدصا حب، اُستاذ الحدیث جامعہ اِسلامیہ باب العلوم کہروڑپکا ) تا ریخی شہادت : یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب بر صغیر میں فرنگی حکومت کے خلاف تحریکِ آزادی چلی تو مسلمانوں کی قوت کو منتشر کرنے کے لیے عیار حکومت نے کچھ ضمیر فروش غدار اَفراد تلاش کیے ،تلاش کرکے اپنے اِن زَرخرید غلاموں کے ذریعے جہاں مختلف مقاصد کی تکمیل کی وہاں مذہبی فرقہ واریت بھی پیدا کی،فرقہ واریت پیدا کرکے اِ س کو قانونی تحفظ دیا ،طریقہ یہ اِختیار کیا کہ پہلے حکومت کی جانب سے آزادی ٔمذہب کا ایک اِشتہار ''آزادیٔ مذہب ''شائع کیا گیا یعنی کسی ایک مذہب کی پابندی لازم نہیں،نتیجہ یہ نکلا کہ جدید محققین برساتی مینڈکوں کی طرح نکل آئے ،اُنہوں نے کتاب و سنت کی نئی نئی تحقیقات و تشریحات کرکے کئی نئے مذاہب نکال لیے۔ دین میں تحریف اور فرقہ واریت کے اِس فتنہ کو روکنے کے لیے علماء ِحقہ بھی اِن کا تعاقب کرنے پر مجبور ہو گئے چنانچہ مسلمانوں کو متحد رکھنے کے لیے اور فرقہ واریت کے جال سے بچانے کے لیے اہلِ حق تقریر و تحریرکے ذریعے کتاب وسنت کی متواتر تحقیق و تشریح کے مطابق دین کا تحفظ کرتے رہے اوراُ ن کے باطل مذاہب او ر فرقہ واریت و فرقہ وارانہ نظریات کی حتی المقدور بیخ کنی کرتے رہے لیکن فرقہ واریت کو قانونی تحفظ حاصل ہونے کی وجہ سے فرقہ واریت کے یہ کردار اَنگریز سرکار کی طرف سے اِنعامات حاصل کرتے اور خطابات پاتے، اِن کو روشن دماغ ،جدید محققین ،جدید مفکرین ،تعلیم یافتہ کے نام سے مشہور کیاجاتاجبکہ اِتحاد کے علمبردار، وحدتِ اُمت داعی علماء ِحقہ کو باغی و غدار قرار دیا جاتا ۔فرقہ واریت پھیلانے اور فرقہ وارانہ تقریر کے اِلزام اور ظلم و ستم کانشانہ بنایا جاتا چنانچہ اِس اِشتہار آزادی ٔمذہب کا تذکرہ کرتے ہوئے