ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2014 |
اكستان |
|
آج کل رواج ہوگیا ہے وہ بے اَصل ہے، اِس سے اِجتناب کرنا چاہیے اور مسلمان برادریوں کے درمیان تحقیر وتنقیص کا سلسلہ بالکل بند ہونا چاہیے۔ جبریہ شادی کی ممانعت : ج : زوجین کی رضامندی اور طبعی رُجحان کے مطابق شادی کی جائے، زبردستی اُن پر شادی کا فیصلہ نہ تھوپا جائے، جہاں اِس اَمر کا خیال نہیں رکھا جاتا اُن میں جلد ہی جدائی اور اِفتراق کی نوبت آ جاتی ہے۔ آنحضرت ۖ نے فرمایا ہے '' کہ جس سے نکاح کا اِرادہ ہو پہلے اُسے ایک نظر دیکھ لو کہ یہ اَزدیاد محبت کا سبب ہوگا۔ (مشکوة ٢٦٩٣) اور بالغ ہوجانے کے بعد لڑکے اور لڑکی سے نکاح کی اِجازت لینا ضروری قرار دیا گیا ہے، اگر والدین کو اَندازہ ہوجائے کہ لڑکا لڑکی کے درمیان نکاح کا رُجحان پایا جاتا ہے اور وہ رشتہ کسی درجہ میں بھی قابلِ قبول ہو تو پھر والدین کو ضد نہیں کرنی چاہیے بلکہ لڑکا لڑکی کی رائے کو قبول کرلینا چاہیے، ورنہ بڑے فتنے پیدا ہونے کا اَندیشہ رہتا ہے۔ نیز زوجین کی عمروں کا بھی لحاظ رکھا جائے، خاص کر نابالغی کی حالت میں نکاح نہ کیا جائے کیونکہ اِس سے بہت سے مفاسد پیدا ہوجاتے ہیں۔ ( اِصلا حِ اِنقلاب اُمت ٤٣٢) د : بہتر ہے کہ ایسی عورت سے نکاح کیا جائے جس کے ناز نخرے اور مطالبات کم سے کم ہوں اور وہ اچھے اَخلاق اور بہتر آداب کی حامل ہو۔ یہ صفات عموماً کنواری لڑکیوں میں زیادہ پائی جاتی ہیں آنحضرت ۖ نے اِرشاد فرمایا ہے کہ '' کنواری عورتوں سے نکاح کرو اِس لیے کہ وہ میٹھے منہ والی، صاف رحم والی اور کم مال پر بھی راضی ہونے والی ہیں۔ (مشکوة شریف ٢ /٢٦٨) لیکن اگر ضرورت ہو تو مطلقہ اور بیوہ عورتوں سے بھی شادی کرلینی چاہیے بلکہ بعض اَوقات اُن سے نکاح کرنا زیادہ باعث اَجر وثواب ہوتا ہے۔(جاری ہے)