ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2014 |
اكستان |
|
کیے ہیں، پندرہ سال سے زیادہ جو عمر تھی اُس کو شریک کیا جاتا تھا جہاد میں ورنہ نہیں، منع کردیا جاتا تھا۔ تو اُنہوں نے کہا اَصْغَرُنَا یہ جو سب سے چھوٹے ہم میں ہیں اَبو سعید یہ آپ کے ساتھ جائیں گے، یہ چلے گئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اِنہوں نے کہا کہ میں نے بھی سنا ہے رسول اللہ ۖ سے یہ، تو پھر وہ فرمانے لگے اپنے آپ سے اَلْہَانِی الصَّفْقُ بِالْاَسْوَاقِ ١ یہ کہ میں بازار میں سودے وغیرہ کے لیے جاتا تھا اُس میں میں مشغول رہا ہوں تو ایسی تعلیمات ساری کی ساری رسول اللہ ۖ کی میرے سامنے نہیں آئیں۔ اِسی طرح سے اور بھی کوئی مسئلہ پیش آیا ہے تو اُنہوں نے کہا ہے کہ لاؤ کوئی اور بھی لاؤ جس نے سنا ہو یہ ،کیونکہ رسول اللہ ۖ نے خاص اُس کے کان میں تونہیں فرمایا، سننے والے اور بھی ہوتے ہیں اور ایک بات ایک ہی دفعہ آپ نے فرمائی ہوگی بار بار بار بار فرمانا تو بہت کم ہے کیونکہ وہ ایک دفعہ کی بات بھی کافی ہوتی تھی اُن کے لیے، اِشارہ کافی ہوتا تھا چہرہ ٔ مبارک کی کیفیت جو ہوتی تھی وہ کافی ہوتی تھی اُن کے لیے۔ تو ایک جملہ ایک دفعہ بھی نکلا ہے تو سننے والے توکئی ہوتے تھے وہ سب یاد رکھتے تھے بھلاتا نہیں تھا کوئی بھی کہ یہ بات ایسے ہی ہے چلو گزار دو، یہ بات نہیں تھی۔ وہ لے آئے اُن کے پاس اور اُنہوں نے یہ معذوری ظاہر کی ۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ تَثَبُّتْ کا طریقہ نکالا۔ تو صحابہ کرام سے گناہ ہوئے ہیں مگر یہ گناہ نہیں ہوا ہے کہ حدیث میں گڈ مڈ کردی ہو ،یہ ثبوت ملا ہی نہیں کہیں بھی کہ کوئی روایت اُنہوں نے غلط بیان کی ہو، جھوٹ باندھی ہو ۔ روایت کرنے میں صحابہ کی اِحتیاط : ہاں یہ ثبوت ضرور ملا ہے کہ بہت سے صحابہ کرام روایت یاد ہونے کے باوجود( حدیث کے الفاظ) بتاتے ہوئے دوہراتے ہوئے ڈرتے تھے مسئلہ بتادیتے تھے (مگر الفاظ) دوہراتے ہوئے ڈرتے تھے کہ رسول اللہ ۖ کے کلمات ممکن ہیں اور ہوں اور ہم سے اُس میں کوئی غلطی ہو جائے اِس لیے وہ یہ نہیں کرتے تھے۔ سعد اِبن اَبی وقاص رضی اللہ عنہ سے کم روایات ہیں، حضرت زُبیر رضی اللہ عنہ جو عشرہ مبشرہ میں ہیں رسول اللہ ۖ نے اِنہیں '' حَوَارِیْ '' ٢ فرمایا ہے یعنی میرا مخلص ساتھی اور ١ بخاری کتاب البیوع رقم : ٢٠٦٢ ٢ بخاری کتاب الجھاد و السیر رقم : ٢٨٤٧