ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2014 |
اكستان |
|
عورتیں بھی مصنف بن سکتی ہیں : ایک لڑکی کی تصنیف کردہ کتاب میرے پاس آئی جس کو میں نے پڑھا تو وہ بہت نافع معلوم ہوئی اُس میں کوئی نقصان کی بات نہ تھی مگر آخر میں مصنفہ کا پورا نام اورپتہ لکھا ہوا تھا، فلاں محلہ کی رہنے والی۔ میں حیران ہوا کہ اگر تصدیق کرتا ہوں تو پورا پتہ لکھنے کے لیے بھی سند ہوجائے گی کیونکہ نام اور پتہ وغیرہ سب لکھا ہوا ہے اور تصدیق نہیں کرتا تو سوال ہو سکتا ہے کہ اِس میں کون سی بات مضرت کی تھی جس کی وجہ سے تصدیق نہ کی ،اِسی تردّد میں تھا کہ ایک ترکیب سمجھ میں آگئی وہ یہ کہ میں نے مصنفہ کا نام کاٹ دیا اور اِس کے بجائے لکھ دیا راقمہ اللہ کی ایک بندی اور تقریظ میں لکھ دیا یہ کتاب نہایت عمدہ ہے اور سب سے زیادہ خوبی اِس میں یہ ہے کہ ایسی بی بی کی تصنیف کردہ ہے جو بڑی حیاء دار ہے کہ اُنہوں نے اپنا نام بھی اِس پر نہیں لکھا ،یہ ترکیب نہایت اچھی رہی اِس واسطے کہ اگر وہ میری تصدیق اپنی کتاب پر چھاپیں گی تو اپنا نام نہیں لکھ سکتیں اور اگر اپنا نام لکھیں گی تو میری تصدیق نہیں چھاپ سکتیں ،چلو میرا پیچھا چھوٹا۔ عورتوں کو اَپنا نام وپتہ کسی مضمون یا رسالہ میں نہیں ظاہر کرنا چاہیے : میری سمجھ میں نہیں آتا کہ عورتوں کو اپنی تصنیف پر نام لکھنے سے کیا مقصود ہوتا ہے۔ اگر ایک مفید مضمون دُوسری عورتوں کے کان تک پہنچانا ہے تو اِس کے لیے نام کی کیا ضرورت ہے،مضمون تو بغیر نام کے بھی پہنچ سکتا ہے پھر نام کیوں لکھا جاتا ہے۔ ایک آفت نازل ہوئی ہے کہ تعلیم یافتہ عورتیں اَخباروں میں مضامین دیتی ہیں اور اُن میں اپنا نام اور گلی اور مکان نمبر بھی ہوتا ہے، یہ شایداِس واسطے کہ لوگوں کو اُن سے خط وکتابت میں میل ملاقات میں دِقت نہ ہو، نہ معلوم اُن کی غیر ت کہاں اُڑ گئی اور خدا جانے اُن کے مردوں کی غیرت کہاں گئی، اُنہوں نے اِس کو کیوں کر گوارہ کر لیا یوں کہیے کہ طبیعتیں ہی مسخ ہوگئیں۔ عورت کے لیے تو کسی طرح بھی نام (وپتہ) لکھنا مناسب نہیں ،عورت کو تو کوئی تعلق سوائے خاوند کے کسی سے بھی نہ رکھنا چاہیے۔ ض ض ض