ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2014 |
اكستان |
|
صحابہ کی خدا خوفی : رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم کے زمانے میں صحابہ کرام سے گناہ تو ہوئے اُنہوں نے اِستغفار بھی کیا معافی بھی مانگی اللہ سے اور رسول اللہ ۖ سے یہ طلب کیا کہ جو حد ہوتی ہے وہ نافذ کی جائے ہمارے اُوپر تاکہ آخرت کے حساب سے ہم بچ جائیں ،گناہ اُن سے ہوئے تھے اور اُن پہ کوئی دعویدار بھی نہیں تھا مگر اُن کی طبیعت اللہ تعالیٰ نے ایسی بنادی تھی کہ اُنہیں چین ہی نہیں آیا حتی کہ اپنے اُوپر حد لگوائی، گواہ بھی کوئی نہیں خودہی دعوی کر رہے ہیں اور خودہی حد لگوا رہے ہیںاپنے اُوپر، مرد بھی ہیں ایسے اور عورتیں بھی ہیں ایسی۔ مگر رسالت مآب ۖ نے اُنہیں کافر تو نہیں کہا ،گناہ تو ہوا تھا اُن سے، کبیرہ ہوا تھا کافر تو نہیں فرمایا ،چوری کر لی ہاتھ بھی کاٹا گیا کافر نہیں کہا گیا ،یہ کہا گیا ہے کہ توبہ کرو کیونکہ بعض دفعہ بلکہ بہت دفعہ ایسے ہوتا ہے کہ ایک آدمی گناہ کرتا ہے جیسے کہ قتل ہے چوری ہے اور اِن میں پکڑا جاتا ہے اور پھر سوچتا ہے کہ اَب چھوٹ کے جاؤں گا تو پھر ڈاکہ ڈالوں گا گویا ابھی اُس نے توبہ نہیں کی تو رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے فرمایا کہ توبہ بھی کرنی چاہیے یعنی آئندہ اِس کام کو نہ کرنے کا اِرادہ اور اِس کام کو جو کیا ہے برا سمجھنا، یہ ضروری ہے، اگر یہ نہیں ہوا اور فقط سزا ہوئی ہے تو پھر یہ ہے کہ آخرت میں تخفیف تو ہوجائے گی کیونکہ تکلیف تو پہنچی ،تکلیف تو اُس نے اُٹھائی ہے اور بعض صورتوں میں تو ہمیشہ کے لیے وہ معذور ہوجائے گا، ہاتھ سے معذور ہوگیا چوری کرنے پر۔ سزائوں میں چھان بین اوراِحتیاط : اِس میں ایک بات میں یہ ویسے کہنی چاہتا تھا کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بس آسان ہے ہاتھ کٹنا، ہاتھ کٹنا بھی آسان نہیں ہے ، یہ سمجھتے ہیں کہ اِسلام میں سزائیں بڑی سخت ہیں ٹھیک ہیں بڑی سخت ہیں مگر اُس کے ثبوت بھی کافی سخت ہیں، آسانی سے اُن کا ثبوت بھی نہیں ہوتا اور آسانی سے وہ جاری بھی نہیں کی جاتیں، اُن کے ثبوت کے لیے بھی بڑی شرائط ہیں۔ اور چوری جسے شریعت نے قرار دیا ہے وہ یہ نہیں ہے کہ یہاں سے پڑی ہوئی چیز اُٹھا کے لے جاؤ تو چوری ہوگئی یہ نہیں ہے چوری ، چوری کا