ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2014 |
اكستان |
|
والے کو پسند فرماتے ہیں لہٰذا مجھے معاف فرمادیجئے۔ '' دیکھیے کیسی دُعا اِرشاد فرمائی، نہ زر مانگنے کو بتایا نہ زمین، نہ دھن نہ دولت، کیا مانگاجائے ؟ معافی ! بات اَصل یہ ہے کہ آخرت کا معاملہ سب سے زیادہ کٹھن ہے، وہاں اللہ کا کام معاف فرمانے سے چلے گا اگر معافی نہ ہوئی اور خدا نخواستہ عذاب میں گرفتار ہوئے تو دُنیا کی ہرنعمت اور لذت اور دولت و ثروت بیکار ہوگا، اَصل شے معافی اور مغفرت ہی ہے۔ ایک حدیث میں اِرشاد ہے : مَنْ قَامَ لَیْلَةَ الْقَدْرِ اِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَلَہ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہ۔ (بخاری شریف) ''جو شخص لیلة القدر میں اِیمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لیے) کھڑا رہا اُس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ '' کھڑا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نماز پڑھے اور اِسی حکم میں یہ بھی ہے کہ تلاوت اور ذکر میں مشغول ہو۔ اور ثواب کی اُمید رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ریاء وغیرہ کسی طرح کی خراب نیت سے کھڑا نہ ہو بلکہ اِخلاص کے ساتھ محض اللہ کی رضا اور ثواب کے حصول کی نیت سے مشغولِ عبادت رہے ۔بعض علماء نے فرمایا ''اِحْتِسَابًا'' کا مطلب یہ ہے کہ ثواب کا یقین کر کے بشاشت ِقلب سے کھڑا ہو، بوجھ سمجھ کر بددِلی کے ساتھ عبادت میں نہ لگے کہ ثواب کا یقین اور اِعتقاد جس قدر زیادہ ہوگا اُتنا ہی عبادت میں مشقت برداشت کرنا سہل ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ جو شخص قرب اِلٰہی میں جس قدر ترقی کرتا جاتا ہے عبادت میںاُس کا اِنہماک ہوتا جاتا ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوجانا ضروری ہے کہ حدیث ِ بالا اور اِس جیسی اَحادیث میں گناہوں کی معافی کا ذکر ہے۔ علماء کا اِجماع ہے کہ کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔ پس جہاں اَحادیث میں گناہوں کے معاف ہونے کا ذکر آتاہے وہاں صغیرہ گناہ مراد ہوتے ہیں اور صغیرہ گناہ ہی اِنسان سے بہت سر زد ہوتے ہیں۔ عبادت کا ثواب بھی اور ہزاروں گناہوں کی معافی بھی ہوجائے کس قدر نفع عظیم ہے۔ شب ِ قدر کی تاریخیں :