ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2014 |
اكستان |
|
مطلب یہ ہے کہ مال ہو محفوظ جگہ ہو وہاں پہنچے ایسا آدمی جس کا کوئی تعلق نہ ہو ،کوئی تعلق اُس کا اِس گھر سے نہیں ہے یہاں کا غلام نہیں ، خادم نہیں، ملازم نہیں ،اگر ملازم ہے اور چیز کھلی پڑی ہے تو کھلی پڑے ہونے میں بھی تخفیف ہوگی اور بہت طرح تخفیف ہے یعنی اِس میں ہاتھ نہیں کٹے گا اور سزائیں(کم درجہ کی) دے دی جائیں گی تعزیری کار روائی کردی جائے گی ہاتھ کٹنا نہیں ہوگا، شریک ہے کار وبار کا وہ چرا لیتا ہے تو اَب بظاہر تو چوری ہے لیکن کاروبار میں شرکت ہے اِس بناء پر ہاتھ نہیں کٹے گا اُس کا۔ تو تقریبًا کوئی پندرہ یا سترہ توعام کتابوں میں ہیں موجود شکلیںکہ جن میں ہاتھ نہیں کٹتا بلکہ کوئی اور سزا دے دی جائے گی'' تعزیز'' جسے کہتے ہیں یعنی جو مناسب لگے جس سے اُس کو آئندہ جرأت نہ ہو سکے اُس کی حوصلہ شکنی ہو ہمت ٹوٹے اُس کی،یہ ضروری ہے یہ ہو جائے ،ہاتھ نہیں کٹے گا۔ .......ورنہ ٹونڈوں کی کثرت ہوتی : اگر ذرا ذرا سی بات پر ہاٹھ کٹ جایا کرتے تو پھر تو اِسلام میں سب سے زیادہ ٹونڈے ہوتے اور لوگ کہتے کہ اِسلام جو ہے یہ تو ٹونڈوں کا مذہب ہے لیکن یہ چودہ سو سال گزر گئے یہ تو کسی نے نہیں کہا کہ اِسلام ٹونڈوں کا مذہب ہے، کوئی قصہ پیش آجاتا ہے ایسا اور اُس میں پھنس جاتا ہے وہ آدمی ،کوئی صورت نہیں رہتی بچنے کی تو پھر ہاٹھ کٹ جاتا ہے لیکن وہ پھر سارے لاہور کے لیے کافی ہے ایک ہی ہاتھ، یہاں چوری پھر نہیں ہوگی۔ اِسلامی سزا اِسلامی طریقہ پر ہوگی، اَنگریز کے طریقہ پر نہیں : لیکن ہو اِسلام کے طریقے پر یہ نہیں ہے کہ اَلگ لے جا کے اور وہاں جیل میں ہی کاٹ دیا جائے اور پتہ نہ چلے اُس کا ،اِس کاکوئی اَثر نہیں ہوگا، سزا جو بھی دی جائے گی اِسلام کی رُو سے وہ اِسلام کے طریقے پر دی جائے گی اور وہ یہ ہے کہ سب دیکھیں اگر سب نہیں دیکھیں گے تو عبرت نہیں ہو گی اور جو سب دیکھ لیتے ہیں پھر جو عبرت ہوتی ہے یا ڈر بیٹھتا ہے تو لوگوں سے کھانا نہیں کھایاجاتا کئی کئی دِن گھروں میں ،ایسا برا حال ہوتا ہے ،وہ نہیں کر سکتے پھر ہمت ایسی ۔ یہ تو میں نے درمیان میں عرض کردیا