ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2014 |
اكستان |
|
مؤرخہ ٢٣جون کو شائع ہوا اُس کو پڑھ کر ایسا لگا کہ جیسے اپنے ہی مافی الضمیر کا عام فہم اَنداز میں اِظہار ہو رہاہو،اِس لیے دل میں یہ بات آئی کہ ایک کہنہ مشق صحافی کی جچی تلی اور زمینی حقائق پر مشتمل مدلل تحریر کو نظرقارئین کر دیاجائے کیونکہ جہاں یہ تحریر قارئین کے لیے چشم کشاہے وہیں یہ منصوبہ سازوں کے لیے نوشتہ ٔ دیوار بھی ہے ۔ پارلیمنٹ اور میڈیا کی ویڈیو گیمز ''موجودہ جمہوری ریاستی نظام کا کمال یہ ہے کہ سب یہ تصور کیے بیٹھے ہیں کہ قومی اِتفاقِ رائے کا اِظہار دو طریقوں سے ہوتا ہے : ایک یہ کہ پارلیمنٹ کے منتخب اَرکان اگر متفقہ طور پر ایک فیصلہ کر لیں تو اُسے عوام کی اُمنگوںکا ترجمان سمجھا جاتا ہے ۔ اور دُوسرا یہ کہ اَگر میڈیا اپنے چند تجزیہ نگاروں کی گفتگو، یک طرفہ رپورٹوں اور مخصوص ایجنڈے کے تحت کسی کو مجرم، دہشت گرد اور اَمن کے لیے خطرہ قرار دے کر اُس کے خلاف اِس بات کا بار بار اعلان کرے کہ پوری دُنیا اِس بات پر متفق ہے کہ اِن کے وجود سے دُنیا کو پاک کیا جائے تو اِسے عالمی یا قومی اِتفاقِ رائے سمجھ لیا جاتا ہے۔ اَلیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد اِس سارے کھیل میں ایک اور غیر اِنسانی عنصر شامل ہو چکا ہے جس نے میڈیا دیکھنے والوں کو بے حس اور اِنسانی ہمدردی کے جذبات سے عاری بنا دیا ہے۔ اِس کا پہلا اِظہار عراق کی پہلی جنگ تھی جسے دُنیا بھر میں ڈش اَینٹینا کے ذریعے دِکھا یا گیا تھا، یہ جنگ نہیں بلکہ دیکھنے والوں کے لیے ایک ویڈیو گیم نظر آتی تھی، ایک ایسی ویڈیو گیم جس میں ایک ہنستے بستے شہر پر فضاؤں میں لہراتے، بل کھاتے اور