ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2014 |
اكستان |
|
شب ِ قدر کے بارے میں حدیثوں میں وارِد ہوا ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو لہٰذا رمضان کی ٢١ ویں ٢٣ ویں ٢٥ ویں ٢٧ ویں ٢٩ ویں رات کو جاگنے اور عبادت کرنے کا خاص اہتمام کریں، خصوصًا ٢٧ ویں شب کو ضرور جاگیں کیونکہ اِس دِن شب ِقدر ہونے کی زیادہ اُمید ہوتی ہے۔ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ۖ ایک دِن اِس لیے باہر تشریف لائے کہ ہمیں شب ِ قدر کی اِطلاع فرمادیں مگر دو مسلمانوں میں جھگڑا ہورہا تھا۔ آنحضرت ۖ نے اِرشاد فرمایا کہ میں اِس لیے آیا تھا کہ تمہیں شب ِ قدر کی اِطلاع دُوں مگر فلاں فلاں شخصوں میں جھگڑا ہو رہا تھا جس کی وجہ سے اِس کی تعیین میرے ذہن سے اُٹھالی گئی کیا بعید ہے کہ یہ اُٹھالینا اللہ کے علم میں بہتر ہو۔ لڑائی جھگڑے کا اَثر : اِس مبارک حدیث سے معلوم ہوا کہ آپس کا جھگڑاِس قدر برا عمل ہے کہ اِس کی وجہ سے اللہ پاک نے نبی اَکرم ۖ کے قلب ِمبارک سے شب ِ قدر کی تعیین اُٹھالی یعنی کس رات شب ِ قدر ہے مخصوص کر کے اُس کا علم جو دے دیا گیا تھا وہ قلب سے اُٹھالیا گیا ۔ اگرچہ بعض وجوہ سے اِس میں بھی اُمت کا فائدہ ہوگیا، جیسا کہ اِنشاء اللہ ہم اَبھی ذکر کریں گے لیکن سبب آپس کا جھگڑا بن گیا جس سے آپس میں جھگڑے کی مذمت کا پتہ چلا۔ شب ِ قدر کی تعیین نہ کرنے میں مصالح : علمائے کرام نے شب ِ قدر کو پوشیدہ رکھنے یعنی مقرر کر کے یوں نہ بتانے کے بارے میں کہ فلاں رات کو شب ِ قدر ہے چند مصلحتیں بتائی ہیں ۔ اَوّل یہ ہے کہ اگر تعیین باقی رہتی تو بہت سے کوتاہ طبائع دُوسری راتوں کا اہتمام بالکل ترک کر دیتے اور صورت ِموجودہ میں اِس اِحتمال پر کہ شاید آج ہی شب ِ قدر ہو متعدد راتوں میں عبادت کی توفیق نصیب ہوجاتی ہے۔