ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2014 |
اكستان |
|
''آدمی'' سے نہیں'' عمل'' سے نفرت کی جا سکتی ہے، فرمایا وَلَا تُخْرِجْہُ مِنَ الْاِسْلَامِ اِسلام سے خارج مت کرو۔ حضرت اَنس رضی اللہ عنہ توبہت بعد تک حیات رہے ہیں اُنہوں نے جب اِن(خارجی) لوگوں کے عقائد سنے ہوں گے تو بتلایا ہوگا اور دُوسرے بھی موجود تھے صحابہ کرام اُنہوں نے یہ روایتیں سنائی ہوں گی ۔ کسی بھی صحابی سے روایت میں غلط بیانی ثابت نہیں ! : اورکوئی غلط بیانی کسی صحابی سے بھی ثابت نہیں، کہیں بھی نہیں ثابت کہ کسی صحابی نے حدیث غلط بیان کی ہو، یہ ہے ہی نہیں۔ اِس واسطے (سب نے) حدیث کے بارے میں سب کے سب صحابہ کرام کو(تسلیم کیا ہے کہ) عَدُوْلْ صَدُوْقْ سچے ہیں عادل ہیں بالکل ٹھیک بیان کرتے ہیں۔ کسی صحابی کی روایت کسی نے سنی ہو اور تردّد ہوا ہو تو پھر دُوسروں سے تحقیق کی ہو تو یہی معلوم ہوا ہے کہ سچ تھی، غلط بات نہیں تھی۔ حضرت عمر کی تجارت اور طالب ِعلمی : جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ قاعدہ بنا لیا تھا کہ ایک صحابی سے اگر ایسی روایت سنتے تھے جو اُنہوں نے خود نہ سنی ہو کیونکہ وہ تجارت بھی تو کرتے تھے ہر وقت تو حاضر نہیں رہتے تھے، زیادہ سے زیادہ حاضر رہتے تھے کوشش کرتے تھے لیکن کارو بار بھی کرتے تھے تو ایسی روایتیں بھی ہوگئیں کہ جواُنہوں نے نہیں سنیں،مثال کے طورپر جب کہیںآپ جائیں تو تین دفعہ اِجازت چاہیں اگر اِجازت مل جائے گھر والا اِجازت دے دے تو چلے جائیں اَندر ،نہ اِجازت دے تین دفعہ بھی تو چلے جاؤ واپس تو اِجازت کا قاعدہ یہی تھا کہ سلام کر لو اور سلام کی آواز گھر میں پہنچ ہی جاتی تھی دروازے کوئی ایسے خاص نہیں تھے کہ جن میں ایسی حفاظت کا اِنتظام ہو آواز نہ پہنچ سکے وغیرہ وغیرہ ،کوئی چیز ایسی نہیں تھی، اَب یہ ہے کہ گھنٹیاں ہوتی ہیں تو گھنٹیاں بجائیں تو تین دفعہ بجائیں اُس کے بعد نہ آئے جواب تو چلے جائیں، ٹیلیفون کا بھی یہی رہے گا کہ گھنٹی ہورہی ہے تو تین دفعہ کے بعد پھر بند کرودو اگر نہیں اُٹھا سکا وہ،