ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2014 |
اكستان |
|
لڑکیوں اور عورتوں کی تعلیم کے طریقے اور ضروری ہدایات : ٭ تعلیم باقاعدہ ہونی چاہیے اِس کا طریقہ یہ ہے کہ عورتوں کو وہ کتابیں پڑھائیے جن میں اُن کی دینی ضروریات لکھی گئی ہیں اُن کو سبقًا سبقًا پڑھائیے اُن کے ہاتھ میں کتاب دے کر بے فکر نہ ہو جائیے۔ ٭ عورتیں اَکثر کم فہم اور کج فہم ہوتی ہیں یا تو کتاب کے مطلب کو نہیں سمجھیں گی یاکچھ کا کچھ سمجھ لیں گی اِس لیے اِس کا سہل طریقہ یہ ہے کہ ایک وقت مقرر کرکے گھرکا کوئی مرد بیبیوں کو اَکٹھا کرکے وہ کتابیں پڑھایا کرے یا اگر وہ نہ پڑھ سکتی ہوں تو اُن کو سنایا کرے مگر تعلیم کی غرض و غایت پر نظر ر ہے صرف ورق گردانی نہ ہو۔ ٭ جو جو مسئلے اُن کو پڑھائے جائیں یاسنائے جائیں اُن پر عمل کی نگرانی بھی کی جائے۔ ٭ یہ بھی قاعدہ ہے کہ مسئلہ پڑھنے سے یاد نہیں رہتا بلکہ اُس کا کار بند (عمل پیرا) ہوجانے سے خوب ذہن نشین ہوجاتا ہے۔ اور اگر کوئی بی بی میسر ہوتو وہی کتاب لے کر دُوسری بیبیوں کو پڑھائیں یا سکھائیں، بہر حال کوئی صورت ہو مگر اِس سے غفلت نہ ہونی چاہیے پانچ دس منٹ روزانہ وقت دینے سے کار بر آری ہو سکتی ہے۔ (دعواتِ عبدیت ، منازعة الہوی ج ١٧ ص ٨٨) ٭ تعلیم کے ساتھ ایک کام اور بھی کرنا چاہیے وہ یہ کہ لڑکیاں کسی تعلیم کے خلاف عمل کریں تواُن کو روکو بلکہ اُن کے خلاف عمل کرنے پر یوں کرو کہ جب کبھی غیبت کریں تو کتاب منگا کر اور وہ مضمون دِکھلا کر تنبیہ کرو، اگر اِس طرح سے عمل رہا تو اِنشاء اللہ ایسا پاکیزہ نشوو نما ہوگا جس کا کچھ کہنا ہی نہیں۔ (حقوق الزوجین ص ٣٢٥) ٭ ایک بات کی اور ضرورت ہے کہ جو نصاب تجویز کیا جائے اُس نصاب کو ایک دفعہ ختم کرکے اُس کو کافی نہ سمجھیں اِس کو روز مرہ کا وظیفہ سمجھئے اور کچھ نہ سہی چار ہی ورق سہی دو ہی سہی جیسے قرآن شریف کی تلاوت کیا کرتے ہیں اِسی طرح دو ورق اِس کے بھی پڑھ لیے یا سن لیے۔ اگر تمام عمر اِس میں لگا رہنا پڑے تب بھی ہمت کرنی چاہیے۔ (اَلتبلیغ ج ٧ ص ٧١ )