ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2014 |
اكستان |
|
اُس فرقے نے یہ عقیدہ بنالیاکہ جو آدمی کبیرہ گناہ کرے وہ اِسلام سے خارج اور کافر ہوگیا دوبارہ مسلمان ہو، لیکن اِس حدیث شریف میں اُن کی تردید ہے صحابہ کرام نے جو سنا وہ بتلایا اور صحابہ کرام نے جو سمجھا جو سنا جو بتلایا اُس پر چلنا یہی اَصل میں''اہل سنت'' کی علامت ہے۔ خوارج اور معتزلہ بدعت فی العقیدہ میں مبتلا ہوئے : اگر اُس سے ہٹ کر چلتا ہے کوئی تو وہ پھر اہلِ سنت میں داخل نہیں رہا وہ ''بدعتی'' فرقہ کہلائے گا خوارج کا فرقہ یہ بھی بدعتی اور معتزلہ اِن سے ذرا دُوسرے درجے میں تھے وہ بھی بدعتی تو بدعت ایک تو ہوتی ہے اَعمال میں، ایک ہوتی ہے عقائد میں تو عقائد کی بدعت میں یہ لوگ مبتلا تھے۔ توجو لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہہ لے اُس سے رُک جاؤ ،کس چیز سے رُک جاؤ ؟ اِ س چیز سے رُک جاؤ کہ مثلاً لڑائی ہورہی ہے اور کوئی آدمی لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہہ لیتا ہے تو عین لڑائی میں بھی رُک جائیں۔ ایک صحابی کا اِسی طرح کا قصہ ہوا تھا اُنہوں نے مسئلہ پوچھا رسول اللہ ۖ سے کہ ایک آدمی ہے میدانِ جہاد میں وہ میرے اُوپر حملہ آور ہوتا ہے اِس طرح کہ میرا ہاتھ کاٹ دیتا ہے میں اُس کے پیچھے جاتا ہوں اور بعد میں سمجھتا ہے وہ کہ میں مارا جاؤں گا تو وہ لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہہ لیتا ہے تو میں اُسے مارُوں یا رُک جاؤں ؟ رسولِ کریم علیہ الصلوة والتسلیم نے فرمایا کہ نہیں، نہیں مار سکتے اَب، اُنہوں نے عرض کیا کہ وہ تو مُلْتَجِأً یعنی پناہ پکڑنے کے لیے یہ بات کہہ رہا ہے ویسے تو نہیں کہہ رہا سچ مچ تو آقائے نامدار ۖ نے فرمایا کہ چاہے ویسے نہ بھی کہہ رہا ہو جس طرح بھی کہہ رہا ہو رُکنا پڑے گا ،اُصول تو کوئی بنایا ہی جاتا ہے اُس اُصول کے تحت ہی چلنا پڑتا ہے تواِسلام نے یہ اُصول بتایا کہ جو لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہہ دے پھر اُسے نہ مارو اور اگر پھر بھی تم مارو گے تو پھر تم اُسے کے درجہ میں چلے گئے یعنی جو وہ کافر تھا اُس کے قریب قریب تم بھی چلے گئے اور مسلمان کو کافر سمجھنا یا کافر کہنا یہ غلط ہے ،یہ نہیں کیاجا سکتا، تو کسی گناہ کی وجہ سے کافر کہہ دیا جائے یہ نہیں ہوگا۔