ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2014 |
اكستان |
|
شکل میں متجسد کردیا گیا ہو اور یہ سواری مَلکی قوت کا مجسمہ ہو اور ملائکہ کے لیے یہ مسافت طے کرنا ایک لمحہ کا کام ہے۔ (iv) حضرت شاہ ولی اللہ صاحب اور دیگر محققین ِ صوفیہ کے بیان کے مطابق جسم پر بعض اَوقات رُوح کے اَحکام غالب آتے ہیں جبکہ رُوح زیادہ پاک اور لطیف ہو۔ ایسی صورت میں جسم اپنا ثقل چھوڑ کر تابع رُوح بن جاتا ہے ۔خود اِس اَحقر کے ایک فاضل متقی مرید مولوی بشیر احمد لائل پوری کو دورانِ ذکر یہ حالت پیش آئی، یہاں تک کہ بدن کا ثقل اور دباؤ ختم ہوگیا اوروہ چار پائی جوپہلے بیٹھنے سے دبتی تھی اِس حالت کے بعد چار پائی نہیں دبتی تھی۔ اِس مضمون کو صدرشیرازی نے اَسفار ِاَربعہ میں مدلل بیان کیا ہے۔ تو حضور علیہ السلام کی رُوح جو اَفضل الارواح ہے اُس کے بھی اَحکام بدنِ حضور علیہ السلام پر غالب آگئے اور جس طرح رُوح کے لیے ملائکہ کی طرح تھوڑے وقت میں عالم ِ بالا کو پہنچنا آسان ہے حضور علیہ السلام کے لیے بھی واقعہ معراج میں ایسا ہوا اور گویا سواری کا ہونا اِس صورت میں فقط اِعزاز کے لیے تھا۔ (v) قدیم فلسفہ میں پتھر کا اُوپر سے زمین پر جلد پہنچنا میلانِ مرکز کا نتیجہ ہے اور جدید فلسفہ میں کششِ زمین کا نتیجہ ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ واقعہ معراج میں رُوحِ محمدی ۖ کو بوجہ کشش عرش یا کشش اِلٰہی کے دفعةً عالم ِ بالا میں پہنچنے کی نوبت آئی ہو اور سواری صرف اِعزاز و اِکرام کے لیے ہو یا دونوں چیزوں کو دخل ہو۔ (vi) اَحادیث ِ صحیحہ میں روانگیٔ معراج سے قبل حضور علیہ السلام کا شق ِ صدر کیا گیا اور سینہ آپ کا چیر کا اُس میں عالم ِ علوی کی کوئی چیز ڈال دی گئی جس سے آپ کی رُوحانی قوت میں اِضافہ مقصود تھا اور آپ کی ذات میں اِس عجیب سفر کے لیے قابلیت اور اِستعداد پیدا کر کے وہ قوت بھی عطا کرنی مقصود تھی جو ملائکہ کو حاصل ہے تاکہ تھوڑے وقت میں ملائکہ کی طرح یہ سفر بآسانی طے ہوسکے۔ اگرچہ یہ قوتِ مَلکی آپ کے لیے وقتی ضرورت کے تحت ہو اور ملائکہ کے لیے دائمی کیونکہ اُن کی آمدو رفت کی ضرورت عالم ِ بالا کو دائمی ہے۔ (باقی صفحہ ٤٠ )