ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2014 |
اكستان |
|
اِس کا جواب یہ ہے کہ( ایک) ذلیل اِنسان نے جب ائیرکنڈیشن کے ذریعے گرمی سردی کا اِنتظام کیا ہے تو قادرِ مطلق اور خالق ِ کائنات کے لیے یہ کیوں ناممکن ہے جس کے اِرادے کے آگے تمام قوانین ِطبعیہ (PHYSICAL RULES) زیرِ فرمان اور مسخر ہیں۔ محققین ِ یورپ نے تصریح کی ہے کہ جس ذات نے قوانین ِطبعیہ(PHYSICAL RULES) بنائے ہیں اُن میں اُس کو مداخلت اور تبدیلی کا بھی حق حاصل ہے۔ ہم نے اُن کے مکمل حوالہ جات دُوسری تصنیفات میں لکھے ہیں اور کسی قدر میری کتاب علوم ِ قرآن میں بھی موجود ہیں۔ (٣) تیسرا شبہ یہ ہے کہ ایسا طویل سفر تھوڑے وقت میں کیونکر ممکن ہو سکتا ہے ؟ اِس شبہ کے جوابات حسب ِ ذیل ہیں : (i) فلاسفہ قدیم و جدید اِس اَمر پر متفق ہیں کہ حرکت کی تیزی اور سر عت کے لیے عقلاً کوئی حد مقرر نہیں کی جا سکتی جس زمانے میں جس قدر حرکت ممکن ہو، اُس زمانے کے کروڑویں حصے میں بھی وہ حرکت ممکن ہے۔ اِس بنا پر سرعت ِ حرکت معراجیہ پر شبہ کرنا اور اُس کو ناممکن قرار دینا(قدیم و جدید) دونوں فلسفوں کے خلاف ہے۔ اَلبتہ مشاہدہ میں ایسی تیز حرکت نہ آنے کی وجہ سے یہ سفر تعجب اَنگیز ضرور ہے جیسے جدید تیز رفتار میزائل قبل اَزمشاہدہ پہلے زمانے میں محلِ تعجب تھے لیکن اَب نہیں۔ (ii) اِس سفر میں جو سواری اِستعمال ہوئی ہے اُس کو'' براق'' کہا جاتا ہے اور برق اور بجلی کی تیز رفتاری ضرب المثل ہے پھر براقیت کے بھی مختلف درجات ہیں اگرچہ عالم ِ سفلی کی بجلی ہو لیکن اگر یہ براقیت عالم ِ علوی کی ہو جن کی قوت ماوراء العقل ہے تو اِس کی سرعت بے نظیر ہوگی بالخصوص جبکہ حدیث کے مطابق حدنگاہ کی دُوری اُس کے لیے ایک قدم تھا۔ (iii) اِس سواری کا اَوّلاً شوخی کرنا اور پھر جبرائیل علیہ السلام کے بتلانے پر شرم و حیا کی وجہ سے پسینہ پسینہ ہونا اِس اَمر کی دلیل ہے کہ یہ سواری صاحب ِعقل تھی اگرچہ عقل کو خدا ہر چیز میں پیدا کرسکتا ہے بلکہ ہر چیز میں کسی قدر (موجود بھی) ہے جیسے (کُلّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہ وَ تَسْبِیْحَہ )سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز اپنی دُعا وتسبیح کو جانتی ہے، لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ مَلکی قوت کو اِس سواری کی