ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2014 |
اكستان |
|
حضرت آدم علیہ السلام کا اِنسان ہونا اِبلیس معلون پر گراں گزرتا تھا اور حضرت آدم علیہ السلام بھی مرورِ اَیام سے اِبلیس کی دُشمنی فراموش کر چکے تھے چنانچہ اِبلیس وسوسہ ڈالنے لگا اور کہنے لگا کہ آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اِس درخت کے قریب جانے سے کیوں منع فرمایا ہے ؟ یہ شجرة الخلد اور درخت ِحیات ہے۔ اگر آپ اِس کا پھل کھالیں گے تو آپ کو کبھی بھی موت نہیں آئے گی اور آپ اپنے دائیں بائیں پھرنے والے ملائکہ کی طرح ایک فرشتہ بن جائیں گے، اِبلیس کبھی حضرت آدم علیہ السلام کے دِل میں وسوسہ ڈالتا اور کبھی حضرت حوا علیہما السلام کے دِل میں کہ کسی طرح وہ اِس درخت سے کھالیں جو اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔ بالآخر وہ اپنی شریر کوششوں میں کامیاب ہو گیا اور ایک دِن حضرت حوا علیہما السلام نے اِس درخت سے پھل توڑا اور حضرت آدم علیہ السلام کو پیش کیا اور دونوں نے شجرہ ممنوعہ کا پھل کھالیا کیونکہ وہ بھول چکے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس کام سے منع فرمایا ہے اور اُنہیں یہ بھی خیال نہیں رہا کہ اِس کام میں اُنہیں اِبلیس نے اُبھارا ہے جو اُن کا دشمن ہے اور جس کے سینہ میں اِن کا کینہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ جب اِن دونوں نے وہ پھل کھا لیا تو حضرت آدم علیہ السلام کو اَچانک تکلیف، پریشانی، شرمندگی اور سینے کی گھٹن محسوس ہونے لگی جو اِس سے قبل محسوس نہیں ہو رہی تھی اور آپ کو یہ بھی پتہ چلا کہ آپ کا لباس اُتر چکا ہے نیز حضرت حوا علیہماالسلام کے جسم پر بھی لباس موجود نہیں تھا چنانچہ آپ دونوں اپنے برہنہ جسم اور ستر کو چھپانے کے لیے درختوں سے پتے توڑنے لگے۔ اللہ نے آپ علیہ السلام کوجنت سے نکل جانے کا حکم دیا، آپ اِبلیس کے دھوکے میں آکر آزمائش کا شکار ہو چکے تھے۔یوں حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام زمین پر آگئے۔ حضرت آدم علیہ السلام نہایت حزیں تھے اور حضرت حوا علیہا السلام کی گریہ وزاری تو رُکتی ہی نہیں تھی، وہ دونوں ہی شرمندہ اور سخت وحشت زدہ تھے۔ پس آ پ دونوں اللہ کے حضور عاجزی کرنے