ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2014 |
اكستان |
|
معاملہ کا موازنہ کیجئے تو آسمان و زمین کا تفاوت پائیں گے اَلبتہ اگر تصنع و تکلف کا نام کسی نے تہذیب رکھ لیا ہو تو اُس کی یہی غلطی ہوگی کہ ایک شے کا مفہوم اُس نے غلط ٹھہرایا اور اگر کسی کے ذہن میں اُس وقت کوئی دیندار ایسا ہو جس میں حقیقی تہذیب کی کمی ہو اُس کی وجہ یہ ہوگی کہ اُس نے علوم ِ دینیہ کا پورا اَثر نہیں لیا۔ (اِصلاحِ اِنقلاب ص ٢٧٠) دینی تعلیم نہ ہونے کا نقصان اور اَنجام : اب دینی تعلیم کو لوگوں نے چھوڑ دیا ہے اور وہ تعلیم اِختیار کر لی ہے جو مضر ہے جو مفید اور ضروری تعلیم تھی اُس میں تو کمی ہوجاتی ہے بلکہ ناپید ہوجاتی ہے، اِس تعلیم کے نہ ہونے کے یہ نتائج ہیں کہ اَخلاق درست نہیں ہوتے اور باوجود یکہ عورتوں میں محبت اور جاں نثاری اور اِیثار کا مادّہ بہت زیادہ ہے پھر بھی خاوند سے اُن کی نہیں بنتی کیونکہ مذہبی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے اُن میں پھوہڑپن اور بے باکی موجود ہے جو کچھ زبان میں آجائے بے دھڑک بک ڈالتی ہیں جس سے خاوند کو تکلیف پہنچتی ہے اور خانہ جنگیاں پیدا ہوجاتی ہیں زندگی تلخ ہوجاتی ہے۔ (اَلتبلیغ وعظ کساء النساء ج ٧ ص ٨٢) تعلیمِ نسواں میں مفاسد کا شبہ اور اُس کا جواب : بعض حضرات کی تو یہ رائے ہے کہ عورتوں کو تعلیم مضر ہے (کیونکہ بہت سے مفاسد کا ذریعہ اور پیش خیمہ ہے جس کا سدِّ باب ضروری ہے ) مگر اِس کی ایسی مثال ہے کہ کسی نے اپنے گھروالوں کو کھانا کھلایا اِتفاق سے بیوی بچہ سب کو ہیضہ ہوگیا، اَب آپ نے رائے قائم کی کہ کھانے پینے سے تو ہیضہ ہوجاتا ہے اِس لیے کھانا پینا سب بند اور دِل میں ٹھان لی کہ کھانے پینے کے برابر کوئی چیز بری نہیں۔ سو تعلیم سے اگر کسی کو ضرر پہنچ گیا تویہ تعلیم کی بد تدبیری سے ہے نہ کہ تعلیم سے۔ (اَلعاقلات الغافلات۔ حقوق الزوجین ص ٣٠٦) ۔(اگر مفاسد کا اِعتبار کیا جائے تو) اِس میں عورتوں کی کیا تخصیص ہے اگر مردوں کو پیش آئیں وہ بھی ایسے ہی ہوں گے تو پھر کیا وجہ ہے کہ عورتوں کو تعلیم سے روکا جائے اور مردوں کو تعلیم میں ہر طرح کی آزادی دی جائے بلکہ اہتمام کیا جائے۔ (اِصلاحِ اِنقلاب ص ٢٦٨)