ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2014 |
اكستان |
|
عتقاد کے ساتھ پڑھ کے عمر بھر کا کافر اور مشرک بھی مومن اور مسلمان اور نجات کا مستحق ہوجاتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ اِس کلمہ میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور حضرت محمد مصطفی ۖ کی رسالت کا جو اِقرار ہے اُس کو اُس نے سمجھ کر مانا اور قبول کیا ہو، پس اگر کوئی شخص تو حید و رسالت کو بالکل بھی نہ سمجھا ہو اور بغیر معنی مطلب کے سمجھے اُس نے یہ کلمہ پڑھ لیا ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مومن اور مسلمان نہ ہوگا لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اِس کلمہ کے معنی اور مطلب کو سمجھیں۔ اِس کلمہ کے دو جز ہیں : ہمارے کلمہ کا پہلا جز ہے لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ : اِس میں اللہ تعالیٰ کی توحید کا اِقرار ہے اور اِس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو عبادت اور بندگی کے لائق ہو۔بس اللہ تعالیٰ ہی کی ایک اکیلی ایسی ہستی ہے جو عبادت اور بندگی کے قابل ہے کیونکہ وہی ہمارا اور سب کا خالق اور مالک ہے، وہی پالنے والا اور روزی دینے والا ہے، وہی مارنے والا اور جِلانے والا ہے ،بیماری اور تندرستی، اَمیری اور غریبی اور ہر طرح کا بناؤ بگاڑ اور نفع اور نقصان صرف اُسی کے قبضہ ٔ قدرت میں ہے۔ اور اِس کے سوا زمین و آسمان میں جو ہستیاں ہیں خواہ اِنسان ہوں یا فرشتے سب اُس کے بندے اور اُس کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔ اُس کی تخلیق میں کوئی اُس کا شریک اور ساجھی نہیں ہے اور نہ ہی اُس کے حکموں میں اُلٹ پلٹ کا کسی کو اِختیار ہے اور نہ ہی اُس کے کاموں میں دخل دینے کی کسی کو مجال ہے لہٰذا بس وہی صرف وہی اِس لائق ہے کہ اُس کی عبادت کی جائے اور اُسی سے لو لگائی جائے اور مشکلوں اور مصیبتوں اور اپنی تمام حاجتوں میں گڑ گڑا کر اُسی سے دُعا اور اِلتجا کی جائے۔ اور وہی حقیقی مالک الملک اور اَحکم الحاکمین ہے یعنی ساری دُنیا کا بادشاہ ہے اور سب حاکموں سے بالا تر اور بڑا حاکم ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اُس کے ہر حکم کو مانا جائے اور پوری وفاداری کے ساتھ اُس کے حکموں پر چلا جائے اور اُس کے حکم کے مقابلہ میں کسی دُوسرے کا کوئی حکم ہر گز نہ ماناجا ئے خواہ وہ کوئی ہو، یا حاکم ِ وقت ہو، اگرچہ اپنا باپ ہی ہو، یا برادری کا چوہدری ہو، یا کوئی پیارا دوست ہو، یا خود