ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2014 |
اكستان |
|
حاصلِ مطالعہ ( حضرت مولانا نعیم الدین صاحب ،اُستاذ الحدیث جامعہ مدنیہ لاہور ) ایک سبق آموز واقعہ : ''یہ ١٩٧٣ء کی بات ہے۔ عربوں اور اِسرائیل کے درمیان جنگ چھڑنے کو تھی ایسے میں ایک امریکی سنیٹر ایک اہم کام کے سلسلے میں اِسرائیل آیا وہ اَسلحہ کمیٹی کا سربراہ تھا۔ اُسے فورًا اِسرائیل کے وزیرِاعظم ''گولڈہ مائیر '' کے پاس لے جایا گیا، گولڈ ہ مائیر نے ایک گھریلو عورت کی مانند سنیٹر کا اِستقبال کیا اور اُسے اپنے کچن میں لے گئی۔ یہاں اُس نے اَمریکی سنیٹر کو ایک چھوٹی ڈائننگ ٹیبل کے پاس کرسی پر بٹھا کر چولہے پر چائے کے لیے پانی رکھ دیا اور خود بھی وہیں آبیٹھی۔ اِس کے ساتھ اُس نے طیاروں، میزائلوں اور توپوں کا سودا شروع کردیا، ابھی بھاؤ تاؤ جاری تھا کہ اُسے چائے پکنے کی خوشبو آئی، وہ خاموشی سے اُٹھی اور چائے دو پالیوں میں اُنڈیلی، ایک پیالہ سنیٹر کے سامنے اور دُوسری گیٹ پر کھڑے اَمریکی گارڈ کو تھمادی پھر دوبارہ میز پر آبیٹھی اور اَمریکی سنیٹر سے محو ِکلام ہوگئی ،چند لمحوں کی گفت وشنید اور بھاؤ تاؤ کے بعد شرائط طے پاگئیں۔ اِس دوران گولڈہ مائیر اُٹھی پیالیاں سمیٹیں اور اُنہیں دھو کر واپس سنیٹر کی طرف پلٹی اور بولی ''مجھے یہ سودا منظور ہے'' آپ تحریری معاہدے کے لیے اپنا سیکرٹری میرے سیکرٹری کے پاس بھیجوا دیجئے۔ یاد رہے کہ اِسرائیل اُس وقت اِقتصادی بحران کا شکار تھا مگر گولڈہ مائیر نے کتنی ''سادگی'' سے اِسرائیل کی تاریخ میں اَسلحے کی خریداری کا اِتنا بڑا سودا کر ڈالا۔ حیرت کی بات ہے کہ خود اِسرائیلی کابینہ نے اِس بھاری سودے کو رَد کردیا۔ اُس کا