ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2014 |
اكستان |
|
ہے اور آگے دوہرانی ہے جتنے درجے بھی آ رہے ہیں بات وہی ہے وکیل بھی وہی چلتے رہیں گے کوئی شروع سے ہی سپریم کورٹ میں کام کرنے والا وکیل آجائے تو آخر تک وہی چلے گاہر عدالت میں، تو ایک خرابی تو یہ ہے۔ اِسلام نے یہ ختم کردی۔ اِسلامی نظام میں ہائی کورٹ پھر سپریم کورٹ ہوگی بس : اِسلامی اگر عدلیہ ہو تو اِس کی درجہ بندی نہیں ہے اُس میں تو مجسٹریٹ کا درجہ توہائی کورٹ کا ہوگاکیونکہ وہ تو شریعت کے مطابق جاتا ہے گواہ ٹھیک ہیں یا نہیں اگر گواہ ٹھیک ہیں تو یہ مجسٹریٹ جو ہے یہ خدا کی طرف سے مامور ہے اِس بات پر کہ جو بات ثابت ہو رہی ہے گواہوں کے ذریعے سے اُس پر خدا کا حکم بتادے ،نافذ کردے خدا کا حکم۔ اگر فرض کیجیے کسی چیز میں کمی رہتی ہے تو اِس سے اُوپرسپریم کورٹ ہے وہ آگے اِدھر اُدھر نہیں جائے گا بس سپریم کورٹ میں جائے گا وہ یہ دیکھیں گے کہ اِس میں کوئی غلطی کسی قسم کی ہوئی ؟ اگر غلطی ہے تو پھر تو وہ اُس کو کینسل کردیں گے اور اپنا فیصلہ دے دیں گے اور اگر غلطی نہیں ہے گواہ بھی ٹھیک ہیں معتمد اور گواہوں میں یہ شبہہ ہو سکتا ہے کہیں ایسی گڑ بڑ نہ ہو اُس کا بھی حق ہے کہ حاکم اُس کے بارے میں تحقیق کر لے کہ یہ گواہ کیسے ہیں جھوٹے ہیں سچے ہیںاِس کے بارے میں کیا شہرت ہے وغیرہ وغیرہ۔ سب چیزوں کی معلومات وہ کر لے گا اور وہ خود بخود کرے گا کیونکہ آگے سپریم کورٹ باقی ہے ہو سکتا ہے(وہاں کیس چلا جائے) اور اُس میں اِس کی بدنامی بھی ہے اور اگر اِس نے جان بوجھ کر غلطی کی ہے تویہ معزول ہے اور معزول بھی فورًا ہی ہو جائے گا لمبا چوڑا کام بھی نہیں ہے۔ تو یہ تو آسان سا سلسلہ تھا اِس میں انگریزوں نے درجہ بندی کردی ہے کہ یہاں بھی حکایت سناؤ پھر دوبارہ وہاں سناؤ پھر تیبارہ وہاں سناؤ وہی حکایت دوہرائے جا رہا ہے اِتنے میں کوئی نہ کوئی گواہ بھی مرہی جائے گا، نہیں پیش ہو سکے گابیمار ہوجائے گا کچھ ہو جائے گاتو بیس بیس تیس تیس سال لگتے ہیں ۔ پچھلے رمضان سے پہلے وہ آئے تھے میرے پاس ایک صاحب وہ بتلا رہے تھے کہ جولائی ١٩٤٧ء میں میرا کیس شروع ہوا ہے اور دسمبر ١٩٨٦ء میں اُس کا فیصلہ ہوا ہے ،مکان کا کیس تھا میرے حق میں ہو گیا تو صدر (ضیاء الحق) صاحب کے رشتہ دار تھے یہ کہہ رہے تھے میں نے اُس کا کوئی نام