ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2014 |
اكستان |
|
عقائد صحیح ہوں، عادات درست ہوں، معاملات صاف ہوں، اَخلاق پاکیزہ ہوں۔ (اَلتبلیغ ص ٦٣) ضرورت ہے کہ بچیوں کو نئی تعلیم و اَنگریزی وغیرہ کے بجائے پرانی تعلیم (یعنی اِسلامی تعلیم) دیجیے تاکہ وہی تعلیم اُن کے رَگ وپے میں رَچ جائے پھر آپ دیکھیں گے وہ بڑی ہو کر کیسی باحیا، سلیقہ شعار، دیندار اور سمجھدار ہوں گی۔ (اَلتبلیغ ص٨٠) اُصولی بات : یہ اَمر زیرِ بحث ہے کہ کون سی تعلیم ہونی چاہیے ؟ مختصر یہ ہے کہ دین کی تعلیم ہو، ہاں گھر کا حساب و کتاب یا دھوبی کے کپڑے لکھنے کی ضرورت اُن کو بھی واقع ہوتی ہے، سو اِتنا حساب و کتاب بھی سہی (ضروری ہے) اور اگر محض اِس ضرورت سے آگے کمال حاصل کرنے کے لیے اُن کو تعلیم دی جاتی ہے، سو کمال بھی جب ہی معتبر ہوتا ہے جبکہ مضرت نہ ہو۔ ہم تو مشاہدہ کرتے ہیں کہ نئی تعلیم سے مضرت پہنچتی ہے اِس وجہ سے اُن کی تعلیم میں یہ اُمور تو ہر گز نہ ہونے چاہئیں اِسی طرح ہر وہ تعلیم جس سے دینی ضرر پیش آئے (وہ بھی نہ ہونا چاہیے) اَلبتہ دینی تعلیم مضر ہو ہی نہیں سکتی جبکہ اِس کے ایسے فضائل اور منافع دیکھے بھی جاتے ہیں تو پھر وہ کیسے مضر ہو سکتی ہے۔ (حقوق الزوجین ص ٣٠٧) عورتوں کا کورس اور نصاب ِ تعلیم : ضروری ہے کہ عورتوں کی تعلیم کا کورس کسی محقق عالم سے تجویز کرواؤ ،اپنی رائے سے تجویز نہ کرو۔ (اَلتبلیغ ج ١٢ ص٢٣٤)۔ لڑکیوں کے لیے نصاب ِ تعلیم یہ ہونا چاہیے کہ پہلے قرآنِ مجید حتی الامکان صحیح پڑھایا جائے پھر دینی کتابیں سہل زبان میں جن میں دین کے تمام اَجزاء کی مکمل تعلیم ہو، میرے نزدیک بہشتی زیور کے دسوں حصے ضرورت کے لیے کافی ہیں، بہشتی زیور کے اَخیر میں مفید رسالوں کا نام بھی لکھ دیا گیا ہے جن کا پڑھنا اور مطالعہ کرنا عورتوں کے لیے مفید ہے مگر سب نہ پڑھیں تو ضروری مقدار پڑھ کر باقی کا مطالعہ ہمیشہ رکھیں، مفید کتابوں کے مطالعہ سے کبھی غافل نہ رہیں۔ (اِصلاحِ اِنقلاب )۔(باقی صفحہ ٥٧ )