ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2014 |
اكستان |
|
نے یہ لکھا ہے کہ بچہ جس وقت ماں کے پیٹ میں جنین ہوتا ہے اُس وقت بھی ماں کے اَفعال کا اَثر اُس پر پڑتاہے اِس لیے لڑکیوں کی تعلیم و اِصلاح زیادہ ضروری ہے کیونکہ لڑکے تو بعد میں ماؤں کے قبضہ سے نکل کر اُستاد اور مشائخ کی صحبت میں بھی پہنچ جاتے ہیں جس سے اُن کی اِصلاح ہوجاتی ہے لڑکیوں کو یہ بات بھی میسر نہیں ہوتی وہ ہر وقت گھر میں رہتی ہیں اور اُن کے لیے یہی اَسلم (بہتر) ہے۔ ضرورت اِس کی ہے کہ عورتوں میں بھی علم ِ دین کی جاننے والیاں کچھ ہوں تو اُن کے ذریعہ سے عورتوں کی اِصلاح باآسانی ہوجائے گی کیونکہ مردوں کے عالم ہونے سے عورتوں کی پوری طرح اِصلاح نہیں ہوتی۔ (التبلیغ واعظ الاستماع والاتباع ج ٤ ص ١٦٤، ٦٦ا) (لڑکیوں اور عورتوں کی اِصلاح نہ ہونے میں) سارا قصور اللہ رحم کرے ماں باپ کا ہے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کا اِنتظام و اہتمام بالکل نہیں کرتے۔ (اَلتبلیغ ج ٧ ص ٦٢) عورتوں کو علمِ دین پڑھانے کا فائدہ : میں بقسم کہتا ہوں کہ عورتوں کو دین کی تعلیم دے کر تو دیکھو اِس سے اُن میں عقل و فہم و سلیقہ اور دُنیا کا اِنتظام بھی کس قدر پیدا ہوتا ہے، جن عورتوں کو دین کی تعلیم حاصل ہے عقل و فہم میں وہ عورتیں کبھی بھی اُن کا مقابلہ نہیں کر سکتیں جوایم اے میمن ہو رہی ہیں، ہاں بے حیائی میں ضرور اُن سے بڑھ جائیں گی اور باتیں بنانے میں بھی اَنگریزی پڑھنے والیاں شاید بڑھ جائیں گی مگر عقل کی بات دیندار عورت ہی کی زبان سے زیادہ نکلے گی، شو ہر صاحب بیوی میں عیب نکالتے رہتے ہیں مگر اُس کی تعلیم کا تو اہتمام کریں۔ (التبلیغ ص ٣١) دینی تعلیم اور جدید تعلیم کا موازنہ : جس کا دِل چاہے تجربہ کر کے دیکھ لے کہ علم ِ دین کے برابر دُنیا بھر میں کوئی دستور العمل اور کوئی تعلیم شائستگی اور تہذیب وسلیقہ نہیں سکھلاتی چنانچہ ایک وہ شخص لیجئے جس پر علم ِ دین نے پورا اَثر کیا ہو اور ایک شخص وہ لیجئے جس پر جدید تہذیب نے پورااَثر کیا ہو پھر دونوں کے اَخلاق اور معاشرت اور