ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2014 |
اكستان |
|
صاحب کے شہید کرنے والوں میں تھا حضرت زُبیر رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں ہیں رسول اللہ ۖ نے اُنہیں'' حَواری '' یعنی اپنا خاص آدمی (قرار دیا)رسول اللہ ۖ کے پھوپھی کے لڑکے تھے اَبوبکر رضی اللہ عنہ کے داماد ہیں بڑی فضیلتیں ہیں جمع اورسب سے بڑی یہ کہ عشرہ ٔمبشرہ میں سے ہیں اُن دس حضرات میں ہیںجن کے بارے میں رسول اللہ ۖ نے (جنت کی)ضمانت دی ۔تو کہنے لگے کہ اپنے باپ کے بدلہ میں اِتنے چھوٹے سے آدمی کو میں مارُوں میں نہیں مارتا، باپ میرا بہت عظیم شخصیت یہ مارنے والا ایک عام آدمی ہے(بہت چھوٹی حیثیت کا آدمی) اِس کو مارُوں باپ کے بدلے میں ؟ تو چھوڑ دیا اُن کو۔ اِسی طرح یہاں بھی ہو سکتا ہے کہ بچے جب بالغ ہوں تو کہہ دیں کہ نہیں چھوڑدو اِس کو یعنی معاف ہی کر دیں تو بھی قصہ ختم ہوگیااور قاتل جو ہے وہ بھی مطمئن ہوگیا کہ اِنہوں نے میرے ساتھ اِحسان کیا ہے ۔ ''دِیت''کا فائدہ : اِس کی دُوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ وہ(مقتول کے ورثا) راضی ہوجائیں کہ چلو خون بہادو کیونکہ مثلاً مقتول غریب آدمی ہے اور قاتل جو ہے وہ بڑا آدمی تھازمیندار تھا وڈیرہ تھا کارخانے دار تھا بڑی حیثیت کا تھا اور اَب جیل میں ہے اور یہ بہت معمولی حیثیت کے ،مزدوری کرکے گزارا کر تے تھے تو یہ مطالبہ تو براہ ِ راست کریں گے کہ جب اُس نے مارا ہے جان سے تو اُس کی جان کا ہمیںحق ہے مطالبہ کر نے کا ،اگر اُس نے مال چھینا ہوتا تو پھر مال کا مطالبہ ہم اُس سے کرتے اُس نے جان چھینی ہے لہٰذا اُس کی جان ہی کا مطالبہ کرسکتے ہیں ،ہاں وہ اپنی جان چھڑانے کے لیے کہے گا جناب اِتنا لے لو اِتنا لے لو مہربانی کرو وہ خوشامد کرے گا اُس کے لوگ آئیں گے پھر یہ بچے ہو سکتا ہے خون بہا پر راضی ہو جائیں اب دونوں کا کار وبار بند نہ ہونے پائے گا ۔اِن کو بھی خون بہا اِتنا مِل جاتا ہے وہ کہ یہ بچے پل جائیں گے پڑھ جائیں گے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجائیں گے کمائی کرنے لگیں گے اور اُس (قاتل) کا بھی یہ ہے کہ وہ چھوٹ گیا۔