ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2014 |
اكستان |
|
تعلیم النسائ ( اَز اِفادات : حکیم الامت حضرت مولانا اَشرف علی صاحب تھانوی ) تعلیم ِنسواں کی ضرورت : تجربہ سے یہ ثابت ہوا ہے کہ مردوں میں علماء کا پایا جانا مستورات کی دینی ضروریات کے لیے کافی وافی نہیں، دو وجہ سے :اَوّلاً پردہ کے سبب سب عورتوں کا علماء کے پاس جانا تقریبًا ناممکن ہے اور گھر کے مردوں کو اگر واسطہ بنایا جائے تو بعض مستورات کو گھر کے ایسے مرد بھی میسر نہیں ہوتے اور بعض جگہ خود مردوں ہی کو اپنے دین کا اہتمام نہیں ہوتا تو دُوسروں کے لیے سوال کرنے کا کیا اہتمام کریں گے۔ پس ایسی عورتوں کو دین کی تحقیق دُشوار ہے اور اگر اِتفاق سے کسی کی رسائی بھی ہو گئی یا کسی کے گھر میں باپ، بیٹا ،بھائی وغیرہ عالِم ہیں تب بھی بعض مسائل عورتیں اِن مردوں سے نہیں پوچھ سکتیں ایسی بے تکلفی شوہر سے ہوتی ہے تو سب شوہروں کا ایسا ہونا عادةً ناممکن ہے تو عورتوں کی عام اِحتیاج رفع ہونے کی بجز اِس کے کوئی صورت نہیں کہ کچھ عورتیں پڑھی ہوئی ہوں اور عام مستورات اُن سے اپنے دین کی ہر قسم کی تحقیقات کیا کریں پس کچھ عورتوں کو متعارف طریقہ سے تعلیم دینا واجب ہوا کیونکہ واجب کا مقدمہ (ذریعہ) واجب ہوتا ہے گو بالغیر سہی۔ (اِصلاحِ اِنقلاب ج ١ ص ٢٦٥) مردوں کے مقابلہ میں لڑکیوں اور عورتوں کی تعلیم زیادہ ضروری ہے : اَولاد کی اِصلاح کے لیے عورتوں کی تعلیم کا اہتمام نہایت ضروری ہے کیونکہ عورتوں کی اِصلاح نہ ہونے کا اَثر مردوں پر بھی پڑتا ہے کیونکہ بچے اکثر ماؤں کی گود میں پلتے ہیں جو مرد ہونے والے ہیں اور اُن پر ماؤں کے اَخلاق وعادات کا بڑا اَثر ہوتا ہے حتی کہ حکماء کا قول ہے کہ جس عمر میں بچہ عقلِ ہیولانی کے درجہ سے نکل جاتا ہے تو گو وہ اُس وقت بات نہ کر سکے مگر اُس کے دماغ میں ہر بات ہر فعل منقش ہوجاتا ہے اِس لیے اُس کے سامنے کوئی بات بھی بے جا اور نا زیبا نہ کرنی چاہیے بلکہ بعض حکماء