ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2014 |
اكستان |
|
وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ ١ اور کسی کو مارنا قتل کرنا یہ اللہ نے منع فرمایا ہے یہ حرام ہے سوائے اِس کے کہ حق بنتا ہو جیسے کہ'' قصاص'' قصاصًا مارا جا سکتا ہے ،کسی کو قتل کیا ہے اُس نے تو اُس کے بدلے میں قصاصًا قتل کیا جائے گا ہاں اگر وہ راضی کر لے مقتول کے ورثہ کو کہ میں پیسے دیے دیتا ہوں خون بہا دیتا ہوں دیت دیتا ہوں مجھ سے قصاص نہ لو خون کا بدلہ خون سے نہ لوتو اُس کا موقع شریعت ِ مطہرہ نے نکالاہے ۔ مثال کے طور پر متقول کے کچھ بچے بالغ ہیں کچھ نابالغ ہیں تو اَب قاتل کو جیل میں رکھا جائے گا کیونکہ ممکن ہے وہ بالغ ہونے کے بعد اِس بات پر راضی ہوجائیں کہ ہمیں دیت مِل جائے مال مِل جائے خون بہا مِل جائے اور خون بہا جو ہے وہ سو اُونٹ ہیں اُن کی قیمت بھی بہت زیادہ بنے گی آج کے حساب سے ...............یا.......... اُس کی قیمت بھی بہت بڑی بنے گی ۔اُونٹ ہر جگہ ہوتے نہیں توپھر وہ قیمت ہی رکھی گئی دونوں میں سے جس پر بھی وہ راضی ہوں۔ قتل کی واردات اور اَنگریزی قانون کی خرابیاں : یہاں تو قانون میں جو انگریزوں نے ہمیں دیا ہے جسے ہم کسی طرح بدلنے پر تیار نہیں ،دو خاندان برباد ہوتے ہیں ایک وہ جو مقتول کا خاندان ہے کہ اُن کا کمانے والا یا اُن کا سہارا یا جو بھی کچھ تھا وہ نقصان ہوا اُس کا اگر وہ کماتا بھی تھا تو کمائی کا بھی نقصان ہوا،ایک خاندان تو اِس طرح ختم ہوا۔ اور دُوسرا خاندان یعنی قاتل وہ بھی بند، اگر وہ بھی کمانے والا ہے تو اُس کا بھی نقصان ہوا یہی حساب ہوگا اور پھر عدالتیں عدالتوں کی کار روائی وہ شروع ہوگی سیشن جج سے یا کسی اور سے پھر اُس کے بعد سینئر سول جج پھر ہائی کورٹ میں پھر بڑا ہی لمبا کام ہے اُس میں خرچ ہوگا بے حساب رِشوتیں بھی اور یہ بھی وہ بھی اِتنے درجے ہوگئے ہر درجہ میںخرچ ہوتا جائے گا کیس وہی ہے گواہ بھی وہی ہیں مگر پھر بھی بہت درجے رکھ دیے ،انگریز نے اِس لیے رکھے تھے کہ ہمارے آدمی تھک جائیں تو جتنا بھی جھگڑا بڑھایا جا سکے بڑھائیں۔بات کیا ہے بات وہی تھی جو مجسٹریٹ کے ہاں دوہرائی ہے پھر آگے دوہرانی ١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٥٢