(١٩) ومسح الرقبة)
ادائیگی میں فرق نہیں آئے گا(٢)اثر میں ہے ان عبد اللہ بن عمر بال بالسوق ثم توضأ وغسل وجھہ ومسح برأسہ ثم دعی لجنازة لیصلی علیھا حین دخل المسجد فمسح علی خفیہ ثم صلی علیھا (مؤطا امام مالک ،باب ماجاء فی المسح علی الخفین ص ٢٤) اس اثر میں مسح علی الخفین بعد میں کیا جس سے معلوم ہوا کہ تمام اعضاء کا پیدرپے دھونا واجب نہیں ہے۔
ترجمہ :(١٩) و مسح الرقبة : گردن کا مسح کرنا (مستحب ہے)(نوٹ ) ھدایة میں مسح الرقبة ،نہیں ہے ،قدوری کے نمبر کی وجہ سے اس مسئلے کو لا رہا ہوں ۔
وجہ : (١)عن ابن عمر رضی اللہ عنہما ان النبی ۖ قال من توضأ ومسح بیدیہ علی عنقہ وقی الغل یوم القیامة (التلخیص الحبیر،باب سنن الوضوء ج اول ص ٣٤ شرح احیاء العلوم للعلامة الزبیدی ج دوم ص ٣٦٥ باب کیفیة الوضوء ،اعلاء السنن ج اول ص ١٢٠(٢)عن لیث عن طلحة بن مصرف عن ابیہ عن جدہ انہ راٰنی رسول اللہ ۖ یمسح راسہ حتی بلغ القذال ومایلیہ من مقدم العنق بمرة۔قال : القذال : السالفة العنق (مسند احمد، باب حدیث جد طلحة الا یامی ،ج رابع، ص ٥٣١، نمبر ١٥٥٢١)ان احادیث سے معلوم ہوا کہ گردن کا مسح کرنا مستحب ہے ۔
خلاصہ: قدوری نے چودہ سنتیں بیان کی ہیں(ا) تین مرتبہ گٹوں تک ہاتھ دھونا(٢) وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا (٣)مسواک کرنا (٤)کلی کرنا (٥) ناک میں پانی ڈالنا (٦) دونوں کانوں کا مسح کرنا (٧) ڈاڑھی کا خلال کرنا (٨) انگلیوں کا خلال کرنا (٩) تیں تین مرتبہ اعضاء کو دھونا (١٠) پاکی کی نیت کرنا (١١) پورے سر کا مسح کرنا (١٢) وضو کو ترتیب سے کرنا (١٣) دائیں جانب سے شروع کرنا (١٤) پے درپے کرنا ۔ اور مستحب ہے گردن کا مسح کرنا۔
نوٹ : سنن اور مستحبات اور بھی ہیں۔