(٣٣٣)الا ان یقرأ الخطیب قولہ تعالیٰ یٰا یُّہَا الذین اٰمنواصلوعلیہ الاٰیة) ١ واختلفوا فی النائی عن المنبروالاحوط ہوالسکوت اقامة لفرض الانصات، واللّٰہ اعلم بالصواب
لصاحبک یوم الجمعة أنصت ْ، و الامام یخطب فقد لغوت َ ۔ ( بخاری شریف ، باب الانصات یوم الجمعة و الامام یخطب ، ص ١٥٠، نمبر ٩٣٤) اس حدیث میں ہے کہ خطبے کے وقت کسی کو چپ رہنے کے لئے کہنا بھی اچھا نہیںہے اسلئے خطبے کے وقت بھی چپ رہے اور کان لگا کر سنے ۔
ترجمہ: (٣٣٣) مگر یہ کہ خطیب اللہ تعالی کا قول (یا ایھا الذین آمنو ا صلو علیہ )آیت پڑھے تو سننے والا دل دل میں درود شریف پڑھے۔
تشریح: خطیب ۔ان اللہ و ملٰئکتہ یصلون علی النبی یآیھاالذین آمنو ا صلوا علیہ و سلموا تسلیماً ( آیت ٥٦، سورة الاحزاب ٣٣) آیت پڑھے تو اس میں حکم ہے کہ ایمان والے بھی حضورۖ پر درود شریف پڑھیں اسلئے اوپر کی آیت اور اس آیت دونوں پر عمل اس طرح کیا جائے گا کہ سننے والا دل دل میں درود شریف پڑھے گا ۔
وجہ : (١) اس حدیث میں اسکا اشارہ ہے۔عن ابی ھریرة عن النبی ۖ قال: من صلی صلوة ً لم یقرأ فیھا بأم القرآن فھی خداج ثلاثا غیر تمام ، فقیل لابی ھریرة : انا نکون وراء الامام فقال : اقرأ بھا فی نفس۔ ( مسلم شریف ، باب وجوب قرأة الفاتحة فی کل رکعة ، ص ١٦٩ ، نمبر ٨٧٨٣٩٥) اس حدیث میں ہے کہ دل دل میں پڑھے ۔
ترجمہ: ١ منبر سے دور کے بارے میں اختلاف کیا ۔ البتہ احتیاط اسی میں ہے کہ چپ رہے ، چپ رہنے کے فرض کو قائم کر نے لئے ۔
تشریح : خطیب کے خطبہ دیتے وقت جو لوگ منبر سے دور ہیں اور خطبہ نہیں سن پا رہے ہیں وہ درود شریف یا آیات قرآنی پڑھیں یا نہیں ، اس بارے میں اختلاف ہے ۔ کچھ حضرات فرماتے ہیں کہ خاموش رہنا اسلئے تھا کہ اچھی طرح خطبہ سن سکے ، اور جب خطبہ نہیں سن سک رہا ہے تو خاموش رہنے سے بہتر ہے کہ قرآن پڑھے ۔ انکا استدلال اس اثر سے ہے ۔عن سعید بن جبیر قال : اذا لم تسمع قرأة الامام فاقرأ فی نفسک ان شئت َ ۔ ( مصنف ابن ابی شیبة ، ١٤٧ من رخص فی القرأة خلف الامام ، ج اول ، ص٣٢٨ ، نمبر٣٧٦١ ) اس اثر میں ہے کہ قرأت سنائی نہ دے رہا ہو تو آہستہ سے پڑھ سکتے ہیں ۔
لیکن مصنف کا مذھب مختار یہ ہے کہ قرأت سنائی نہ دیتی ہو پھر بھی چپ رہے کیوں کہ آیت میں ہے کہ ہر حال میں چپ رہو ، پھر یہ بھی ہے کہ سنائی دے یا نہ دے کان لگائے رکھو ، اسلئے چپ رہنا ہی احوط ہے ۔ و اللہ اعلم بالصواب ۔