٢ لان الاذان لاستحضار الغائبین والرفقة حاضرون والاقامة لاعلام الافتتاح وہم الیہ محتاجون،
(٢٣٠) فان صلی فی بیتہ فی المصر یصلی باذان واقامة) ١ لیکون الاداء علیٰ ہیأة الجماعة
٢ وان ترکہما جاز لقول ابن مسعود اذان الحیّ یکفینا۔
اس اثر میں ہے کہ صرف صبح کی نماز میں اذان دی جاتی تھی ، باقی میں اقامت پر اکتفاء کر تے تھے، اسلئے اقامت کو بھی چھوڑ دینا مکروہ ہے ۔
ترجمہ : ٢ اسلئے کہ اذان غائب لو گوں کو حاضر کر نے کے لئے ہے ، اور ساتھی لوگ حاضر ہیں ۔ اور اقامت نماز شروع کرنے کی اطلاع کے لئے ہے ، اور ان لوگوں کو اسکی ضرورت ہے ۔
تشریح : یہ دلیل عقلی ہے جو اوپر اثر میں اسکا تذکرہ تھا ۔ کہ اذان کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ غائب ہیں انکو اذان دیکر حاضر کیا جائے ، اور یہاں تو تمام رفیق سفر حاضر ہی ہیں اسلئے اذان کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔ اور اقامت کا مقصد یہ ہے کہ مصلیوں کو اسکی اطلاع دی جائے کہ نماز شروع ہو رہی ہے ۔ اور رفیق سفر کو بھی اسکی ضرورت ہے کہ انکو نماز شروع ہو نے کی اطلاع دی جائے اسلئے اقامت کی ضرورت باقی ہے اسلئے اقامت کہی جائے ۔ جیسا کہ اثر میں تھا ۔
ترجمہ : (٢٣٠) پس اگر شہر میں اپنے گھر میں نماز پڑھی تو اذان اور اقامت کے ساتھ نماز پڑھے ۔
ترجمہ: ١ تاکہ ادا جماعت کی ترتیب پر ہو جائے ۔
وجہ : (١) شہر کی مسجد میں اذان اور اقامت ہو چکی ہے اب یہ گھر میں نماز پڑھ رہا ہے ، اسلئے کسی کو بلانے کی ضرورت نہیں ہے اسلئے اذان دینے کی اتنی ضرورت نہیں ہے ، تاہم اذان دے دے تو اچھا ہے تاکہ جس طرح مسجد میں اذان اور اقامت کے ساتھ نماز ہوتی ہے اسی طرح گھر میں بھی اذان اور اقامت کے ساتھ نمازہو جائے ۔(٢) حدیث میں ہے ۔عن ام ورقة الانصاری أن رسول اللہ ۖ کان یقول : انطلقوا بنا الی الشھدة فنزورھا ،فأمر أن یوء ذن لھا و یقام و یوء م اھل دارھا فی الفرائض ۔( سنن بیھقی ، باب سنة الاذان و الاقامة فی البیوت و غیرھا ، ج اول ، ص ٥٩٧، نمبر ١٩٠٩ مصنف ابن ابی شیبة ، ٢٦ فی الرجل یصلی فی بیتہ یوء ذن و یقیم أم لا ، جاول ، ص ١٩٩ ، نمبر ٢٢٨٤) اس حدیث میں ہے کہ حضورۖ نے گھر میں اذان اور اقامت کے ساتھ نماز پڑھی۔
ترجمہ: ٢ اور اگر اذان اور اقامت دونوں کو چھوڑ دیا تو جائز ہے ۔حضرت ابن مسعود کے قول کی وجہ سے کہ گاوئں کی اذان ہمیں کافی ہے ۔
وجہ: ( ١) حضرت عبد اللہ بن مسعود کا عمل اس طرح ہے عن الاسود و علقمة قالا أتینا عبد اللہ بن مسعود فی فقال : أصلی ھوء لاء خلفکم ؟