٣ والحدیث باطلاقہ حجة علی الشافعی فی تخصیص الفرائض بمکة ٤ وحجة علیٰ ابی یوسف فی اباحة النفل یوم الجمعة وقت الزوال (٢٠٠) قالو لاصلوٰة جنازة) ١ لما روینا
وہ بھی نماز ہے ، باقی مردے کو تو دفن کر سکتے ہیں ۔ و قال ابن المبارک : معنی ھذا الحدیث أن نقبر فیھن موتانا ، یعنی الصلاة علی الجنازة و کرہ الصلاة علی الجنازة عند طلوع الشمس و عند غروبھا ۔ ( تر مذی شریف ، باب ما جاء فی کراھیة الصلاة علی الجنازة عند طلوع الشمس و عند غروبھا ، ص ٢٤٩، نمبر ١٠٣٠) اس اثر میں ہے کہ نقبر کا مطلب جنازے پر نماز پڑھنا مکروہ ہے
ترجمہ: ٣ اور حدیث اپنے مطلق ہو نے کی وجہ سے امام شافعی پر حجت ہے فرض کے خاص کر نے میں مکہ مکرمہ میں ۔
تشریح : امام شافعی فرماتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں اوقات مکروہ میں بھی فرض پڑھ سکتا ہے ۔
وجہ : انکی دلیل یہ حدیث ہے ۔عن جبیر بن مطعم : أن النبی ۖ قال : یا بنی عبد مناف ! لا تمنعوا أحداً طاف بھذ البیت و صلی أیة ساعة شاء من لیل و نھار ۔ ( سنن نسائی ، باب اباحة الصلاة فی الساعات کلھا بمکة ، ص ٨٠ ، نمبر ٥٨٦) اس حدیث میں ہے کہ مکہ مکرمہ میں کسی وقت میں بھی نماز پڑھ سکتا ہے اسلئے اوقات مکروہ میں فرض بھی پڑھ سکتا ہے ۔۔ اوپر کی حدیث انکے خلاف حجت ہے ۔
ترجمہ :٤ اور امام ابو یوسف پر حجت ہے نفل کے مباح قرار دینے میں جمعہ کے دن زوال کے وقت میں ۔
تشریح : امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ جمعہ کے دن نفل ٹھیک دو پہر کے وقت بھی پڑھ سکتا ہے ۔ انکا استدلال اس حدیث سے ہے ۔عن جابر بن عبد اللہ قال : کنا نصلی مع رسول اللہ ۖ الجمعة ثم نرجع فنریح نواضحنا قلت : ایة ساعة ؟ قال : زوال الشمس ۔ ( سنن نسائی ، باب وقت الجمعة ، ص ١٩٧، نمبر ١٣٩١) اس حدیث میں ہے کہ زوال کے وقت جمعہ پڑھتے تھے تو جمعہ کے دن زوال کے وقت نفل بھی پڑھنا جائز ہے ۔(٢) اس حدیث میں اسکا ثبوت ہے ۔عن ابی قتادة أن النبی ۖ نھی عن الصلاة نصف النھار الا یوم الجمعة لان جھنم تسعر کل یوم الا یوم الجمعة ۔( سنن بیھقی ، باب الصلاة یوم الجمعة نصف النھار الخ ، ج الثالث ، ص ٢٧٤ ، نمبر ٥٦٨٨ ) اس حدیث میں ہے کہ جمعہ کے دن ٹھیک دوپہر کو نماز پڑھ سکتا ہے ۔۔ اوپر کی حدیث انکے خلاف بھی حجت ہے ۔
ترجمہ : (٢٠٠) ان تین اوقات میں نماز جنازہ بھی جائز نہیں ۔
ترجمہ: ١ اس حدیث کی بنا پر جو ہمنے روایت کی۔
تشریح : ان تین اوقات مکروہ میں نماز جنازہ جائز نہیں ہے ، کیونکہ یہ حدیث اوپر گزر گئی ہے ۔ سمعت عقبة بن عامر