تشریح: ایک عورت کو پہلا خون آیا اور دس دن سے زیادہ خون آیا اور مستحاضہ ہو گئی اس کی کوئی عادت نہ بن سکی جس پر محمول کیا جائے اور ہر وقت خون آتا ہے تو ایسی عورت کے لئے ہر ماہ میں دس دن حیض شمار کئے جائیں گے۔اور باقی دن استحاضہ کے ہو نگے۔
وجہ: (١) ہر ماہ میں تین دن تو یقینی طور پر حیض کا زمانہ ہے۔باقی سات دنوں میں شک ہے۔البتہ حنفیہ کے نزدیک حیض زیادہ سے زیادہ دس دن ہے اس لئے دس دن تک حیض ہی شمار کریںگے ۔زیادہ سے زیادہ دس دن حیض کی مدت ہے اس کی دلیل یہ حدیث ہے ۔عن ابی امامة الباھلی قال قال رسول اللہ ۖ لایکون الحیض للجاریة والثیب الذی قد ایئست من الحیض اقل من ثلاثة ایام ولا اکثر من عشرة ایام فاذا رأت الدم فوق عشرة ایام فھی مستحاضة فمازاد علی ایام اقرائھا قضت ودم الحیض اسود خائر تعلوہ حمرة ودم المستحاضة اصفر رقیق (دار قطنی ، نمبر ٨٣٤) ( ٢)عن واثلة بن الاسقع قال قال رسول اللہ ۖ اقل الحیض ثلاثة ایام و اکثرہ عشرة ایام ۔(دار قطنی، کتاب الحیض ، ج اول ،ص ٢٢٥ ٨٣٦)۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دس دن تک حیض ہے اسلئے جس عورت کی کوئی عادت نہ ہو وہ بالغ ہی مستحاضہ ہو کر ہوئی ہو اسکے لئے ہر مہینے میں دس روز حیض اور باقی بیس دن ،یا انیس دن استحاضہ ہو گا
فائدہ: امام ابو یوسف کی رائے ہے کہ نماز اور روزہ کے حق میں تین دن حیض ہوگا اور باقی دن نماز اور روزے ادا کرے گی اور وطی کے حق میں دس دن حیض شمار ہوگا تاکہ دس دن تک وطی نہ کرے۔ یہ مسئلہ احتیاط پر ہے۔
نوٹ: با ضابطہ کوئی حدیث اس کے بارے میں نہیں ملی۔
فائدہ: امام شافعی کے نزدیک یہ ہے کہ اگر خون کالا یا سرخ ہے تو اس وقت حیض ہوگا اور باقی زمانہ استحاضہ کا شمار ہوگا۔ان کی دلیل وہ احادیث ہیں جن میں کالے اور سرخ خون کو حیض کہا گیا ہے، انک دلیل یہ حدیث ہے ۔ عن فاطمة بنت ابی حبیش انھا کانت تستحاض فقال لھا النبی ۖ اذا کان دم الحیض فانہ دم اسود یعرف فاذا کان ذلک فامسکی عن الصلوة فاذا کان الآخر فتوضئی و صلی۔ (ابو داؤد، باب من قال توضأ لکل صلوة ص٤٨ نمبر ٣٠٤) اس حدیث میں ہے کہ خون کالا ہو تو وہ حیض ہے اور اسکے علاوہ ہو تو وہ استحاضہ ہے ۔