(١٠٧) و لو تیمم قبل الطلب اجزاہ عند ابی حنیفة ) ١ لانہ لا یلزم الطلب من ملک الغیر٢ وقالالایجزیہ لان الماء مبذول عادة۔ (١٠٨) ولوابی ان یعطیہ الا بثمن المثل وعندہ ثمنہ لایجزیہ التیمم) ١ لتحقق القدرة ٢ ولایلزمہ تحمل الغبن الفاحش لان الضرر مسقط
ترجمہ: (١٠٧) اور اگر مانگنے سے پہلے تیمم کر لیا تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک جائز ہو جائے گا ۔
ترجمہ: ١ اسلئے کہ دوسرے کے ملک سے طلب کر نا ضروری نہیں ہے ۔
تشریح : ساتھیوں سے پانی مانگنے سے پہلے تیمم کر کے نماز پڑھ لی تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک نماز ہو جائے گی ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ پانی دوسرے کی ملکیت ہے اور دوسرے کی ملکیت کو مانگنا آدمی پر واجب نہیں ہو تا اسلئے اس پر پانی مانگنا واجب نہیں تھا اسلئے بغیر مانگے تیمم کر لیا تو نماز جائز ہو جائے گی ۔
ترجمہ: ٢ اور صاحبین نے فر مایا کہ نماز جائز نہیں ہو گی اسلئے کہ پانی لوگ عادة دے دیا کر تے ہیں ۔
تشریح : صاحبین فرماتے ہیں کہ لوگ عادة پانی دے دیا کرتے ہیں اسلئے دوسرے کی ملکیت میں ہو نے کے باوجود گویا کہ وہ اپنی ہی ملکیت میں ہے اسلئے اسکو مانگ ہی لینا چاہئے اور یہ پانی کو پانے والا ہے ، اسلئے بغیر پانی مانگے نماز پڑھی تو نماز نہیں ہو گی ۔
اصول : یہ مسئلہ اس اصول پر ہے کہ عادة مباح چیز اپنی ملکیت ہے یا نہیں ۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک اپنی ملکیت نہیں ہے اورحضرات صاحبین کے نزدیک دوسرے کی ملکیت کا پانی بھی اپنا ہی ہے ۔
لغت : مبذول : بذل سے مشتق ہے خرچ کیا ہوا ، گری پڑی چیز جولوگ دے دیا کرتے ہیں ۔
ترجمہ: (١٠٨) اور اگر پانی دینے سے انکار کرتا ہے مگر مثل قیمت سے اور اسکے پاس اسکی قیمت بھی ہے تو تیمم جائز نہیں ہے ۔
ترجمہ: ١ قدرت کے متحقق ہو نے کی وجہ سے ۔
تشریح : ساتھی کے پاس پانی ہے لیکن اتنی قیمت مانگتا ہے جو مناسب ہے اور اس آدمی کے پاس اتنی قیمت جیب میں ہے ، تو اسکے لئے تیمم کرکے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے ، کیونکہ وہ پانی پر قادر ہے ، اسلئے اسکے لئے تیمم کرنا جائز نہیں ۔
ترجمہ: ٢ اور اس پر غبن فاحش کا برداشت کر نا لازم نہیں ، اسلئے کہ ضرر ساقط ہے ۔
تشریح : اگر زیادہ قیمت میں پانی دیتا ہو تو زیادہ قیمت دیکر پانی لینا اور وضو کر نا ضروری نہیں ہے، کیونکہ یہ غبن فاحش ہے اور غبن فاحش کا برداشت کر نا آدمی پر ضروری نہیں ہے ،آیت ہے لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا ، ( آیت ٢٨٦ سورة البقرة ٢ ) اسلئے ایسی صورت میں تیمم کرے گا اور نماز پڑھے گا ۔