٣ و قولہ ں:فی البحرھوالطھورمائہ والحل میتتة ٤ و مطلق الاسم یطلق علی ھذہ المیاہ۔
(٤٠) ولایجوزبما اعتصرمن الشجر،والثمر) ١ لانہ لیس بماء مطلق، و الحکم عند فقدہ منقول الی التیمم ٢ والوظیفة فی ھذہ الاعضاء تعبدیة، فلا تتعدی الی غیر المنصوص علیہ،
جائے پانی ناپاک نہیں شمار کیا جائے گا ۔
ترجمہ: ٣ اور سمندر کے بارے میں حضور ۖ کا قول کہ اسکا پانی پاک ہے اور اسکا مردہ ،یعنی اسکی مری ہوئی مچھلی حلال ہے ۔ یہ حدیث اوپر گزر چکی ہے (ترمذی نمبر ٦٩ابو داود نمبر ٨٣ )۔
ترجمہ: ٤ اور پانی کا مطلق نام ان سب پانیوں پر بولا جاتا ہے ۔
تشریح: اوپر سمندر کا پانی ،چشمے کا پانی اور حوض کے پانی کے بارے میں آیت اور حدیث پیش کی گئی ۔مطلق پانی بولا جائے تو یہی پانی مراد ہوتے ہیں جو پاک ہیں اور پاک کرنے والے ہیں ۔(٢) یوں بھی اوپر کے تمام پانی آسمان ہی سے تعلق رکھتے ہیں اور آسمان کے پانی کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ اس کو میں نے پاک کرنے والا اتارا ہے اس لئے ان پانیوں سے پاکی حاصل کرنا جائز ہے ۔
لغت : اودیة : جمع ہے وادی کی۔ العیون : عین کی جمع ہے چشمہ۔ الآبار : بئر کی جمع ہے کنواں۔ البحار: جمع ہے بحرکی سمندر۔طھور : طھارت سے مشتق ہے اور مبالغہ کا صیغہ ہے خود بھی پاک ہو اور دوسروں کو بھی پاک کرتا ہو ۔ینجسہ : اسکو ناپاک کرتا ہو ۔الحل : حلال ہے ۔میتة : اس مردہ سے مراد مچھلی ہے ۔
ترجمہ:(٤٠) طہارت کرنا جائز نہیں ہے ایسے پانی سے جو درخت سے نچوڑا گیا ہو یا پھل سے نچوڑا گیا ہو ۔
وجہ : (١)یہ پھل اور درخت کا رس ہے پانی نہیں ہے۔اور پانی سے پاکی کرنا جائز ہے جیسے پہلے دلائل کے ساتھ ثابت کیا اس لئے رس سے پاکی حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔ چاہے وہ پھل کا رس ہو یا درخت کا رس ہو (٢)حدیث سے پتہ نہیںچلتا ہے کہ رس سے وضو کیا گیا ہو۔ اس لئے بھی رس سے وضو جائز نہیں ہوگا ۔
ترجمہ: ١ یہ رس مطلق پانی نہیں ہے اور مطلق پانی نہ ہوتے وقت تیمم کا حکم ہے ۔
تشریح: درخت کا اور پھل کا نچوڑا ہواپانی مطلق پانی نہیں ہے بلکہ رس ہے اور مطلق پانی نہ ہو توحکم یہ ہے کہ تیمم کرو ،رس سے وضو یا غسل مت کرو ۔اسکے لئے آیت یہ ہے فلم تجدوا ماء ًفتیمموا صعیداً طیباً،(آیت ٤٣ ،سورة النساء ٤)اس آیت میں ہے کہ پانی نہ ہو تو تیمم کرو ۔
ترجمہ: ٢ ان اعضاء کو دھونا تعبدی ہے اسلئے نص میں جو وارد ہوا ہے اس سے متعدی نہیں ہو گا ۔