ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2013 |
اكستان |
|
حضرات نے یتیم بچوں کے مال مضاربت پر دیے ہیں۔ یہ سب کچھ سب صحابہ کرام کے سامنے ہوتا رہا اَور کسی نے اِس کی مخالفت نہیں کی اِس لیے اِسے اِجماع کہا گیاہے۔ ایک دفعہ حضرت عبداللہ اَور عبیداللہ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے تھے عراق گئے اُن دِنوں حضرت اَبو موسیٰ اَشعری رضی اللہ عنہ وہاں اَمیر تھے اُنہوں نے اِن سے فرمایا کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں آپ کو پیش کرتا میرے پاس مرکزی بیت المال بھیجنے کے واسطے روپیہ رکھا ہے آپ ایسا کریں کہ اِس کا یہاں سے سامان خریدلیں مدینہ منورہ پہنچ کر فروخت کر کے روپیہ بیت المال میں داخل کردیں اَور نفع آپ رکھ لیں۔ جب یہ مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات سن کر فرمایا کہ یہ روپیہ کسی کا بھی نہیں ہے یہ روپیہ بیت المال (اسٹیٹ بینک کا ہے) اَور یہ سب مسلمانوں کا (عوام کا ) ہے اِس لیے روپیہ اَور نفع سب بیت المال میں داخل کردو، یہ نفع بھی سب مسلمانوں کا (عوام کا)ہی رکھو۔ اِس پر عبداللہ خاموش ہوگئے اَور عبیداللہ نے عرض کیا کہ اِس میں ہماری محنت اَور ذمہ داری بھی شامل ہے کہ اگر یہ ہم سے تلف ہوگیا ہوتا توہم اِس کے ذمہ دار ہوتے اَور ضمان دیتے۔ اَور صحابہ کرام بھی موجود تھے اُنہوں نے رائے دی کہ اے اَمیر المومنین آپ اِن دونوں کا مضاربت کی طرح نفع میں حصہ کر دیجیے آدھا نفع اِن کو اَور آدھا بیت المال کو دے دیجیے۔ آپ نے اِس صورت پر عمل کرنے کی اِجازت دے دی۔ غرض جنابِ رسول اللہ ۖ کے زمانہ سے لے کر اَب تک ہر دَور میں اِس صورت پر عمل چلا آرہا ہے اَور کبھی کسی نے اِسے منع نہیں کیا اَور اِجماعِ اُمت جس زمانہ میں بھی ہو حجت ہوتا ہے چہ جائیکہ ہر دَور میں پایا جارہا ہو۔ نیز عقلی طور پر بھی ظاہر ہے کہ تجارت کی اِس صورت کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ بسا اَوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کے پاس مال ہوتا ہے اَور تجارت کی اہلیت نہیں ہوتی اَور دُوسرے شخص کا ذہن تجارتی ہوتا ہے لیکن اُس کے پاس مال نہیں ہوتا تو اِس صورت کے شروع ہونے میں دو ضرورت مندوں کی ضرورت رفع ہوتی ہے اَور حق تعالیٰ نے خریدو فروخت کا سلسلہ بندوں کے مصالح کے لیے اَور اُن کی