ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2013 |
اكستان |
|
پڑھنے کا معمول بھی نقل کیا ہے ۔ (مرقاة المفاتیح ٣/٢٠٦) اگر کسی شخص کو کوئی کام اَچانک پیش آجائے اَوراُسے اِتنی مہلت نہ ہو کہ وہ مذکورہ بالا طریقہ پر اِستخارہ کرسکے تو وہ صرف دُعاء پر بھی اِکتفا کرسکتاہے ۔ (اِصلاحی خطبات ١٠/١٣٩) اِستخارہ کا نتیجہ : یہ ایک اہم مسئلہ ہے ، اِس سلسلہ میں لوگ عموماً پریشانی اَور اُلجھن کا شکاررہتے ہیں کہ اِستخارہ تو کرلیا گیا لیکن اِن پہلوئوں میںسے کس پہلو کا اِنتخاب ہمارے حق میں نافع اَورکامیابی کا ضامن ہوگا، اِس کو کیسے پہچانا اَور جانا جائے اَور کن علامات کو پیش نظررکھتے ہوئے اِنتخاب اَور عمل درآمد کیا جائے ؟ اِس سلسلہ میں دوطرح کی رائے ملتی ہیں : (١) ایک یہ ہے کہ نفس ِاِستخارہ کافی ہے اَور اِسی پر اعتماد کرتے ہوئے آدمی جس کسی پہلو کواِختیار کرے گا اِنشاء اللہ خیر اُسی میں ہوگی کیونکہ اِستخارہ ایک دُعاء ہے ، بندہ اپنے پروردگار سے اِستخارہ کے ذریعہ دَرخواست کرتا ہے کہ اللہ اِس کے حق میں خیر اَوربھلائی کو مقدر فرمائے توضروراللہ اُس کے حق میں بہتری اَوراُس کے حال کے مناسب اَمر کو اُس کے لیے منتخب اَورسہل فرما دیتے ہیں۔ (٢) دُوسری بات یہ ہے کہ اِستخارہ کرنے کے بعد دل کا میلان اَوررُجحان جس پہلو پر ہو اُسی کو اِختیار کرناچاہیے، اِس رائے کی تائید ایک ضعیف حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کو اِبن السنی نے حضرت اَنس سے روایت کیا ہے : عَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ اِذَا ھَمَمْتَ فَاسْتَخِرَّ رَبَّکَ سَبْعًا ثُمَّ انْظُرْ اِلَی الَّذِیْ یَسْبِقُ اِلٰی قَلْبِکَ فَاِنَّ الْخَیْرَ فِیْہِ ۔( معارف السُنن ) ''حضرت اَنس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے اِرشاد فرمایا کہ جب تم کسی کام کا اِ رادہ کرو تو اپنے سے سات دفعہ اِستخارہ کرلو پھر جس چیز کی طرف تمہارا ذہن متوجہ ہو اُسی کی طرف توجہ کرلو کیونکہ خیر اِسی میں ہے۔''