ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2013 |
اكستان |
|
صورت میں اُس چیز کو اِختیار کرلے کیونکہ اللہ نے ہمارے حق میں جو چیز متعین ومقدر کی ہوگی وہ ہمارے حق میں ضرور بہتر ہوگی ۔ (دیکھیے اِمدادالفتاوٰی ١/٥٩٩، ٦٠١) کسی شخص کا دُوسرے کے لیے اِستخارہ کرنا : بندہ اپنی ناقص تلاش وجستجو کے بعد لکھتا ہے کہ اَحادیث میں کسی اَور سے اِستخارہ کروانے کا کہیں ذکرنہیں ملتا، اِس سلسلہ میں بندہ نے جن اَکابر علماء سے رُجوع کیا اُن حضرات نے بھی کسی کتاب میں اِس مسئلہ کے موجود ہونے سے متعلق اپنی لاعلمی کا اِظہار فرمایا۔ اَلبتہ بعض حضرات ِعلماء کا خیال یہ ہے کہ اِس کی اِجازت ہونی چاہیے، دلیل یہ ہے کہ اِستخارہ میں بندہ اللہ رب العزت سے خیر اَور بھلائی کا خواستگار ہوتا ہے جو کہ ایک دُعا ہے اَور دُعاء کی درخواست کسی سے بھی کی جاسکتی ہے جیسا کہ نبی کریم ۖ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا ۔ دَرحقیقت اِستخارہ طلب ِخیر ہی کا نام ہے اَوردُعا جس طرح خود کرسکتا ہے اِسی طرح دُوسروں سے بھی کروا سکتا ہے لیکن جب ہم اِستخارہ سے متعلق اَحادیث پر نظرڈالتے ہیں تو آپ ۖ خود اِستخارہ کے ضرورت مند کو اِس بات کا حکم فرمارہے ہیں کہ وہ اِستخارہ کرے چنانچہ حضرت اَبو اَیوب اَنصاری رضی اللہ عنہ کو آپ ۖ نے بذاتِ خود اِستخارہ کرنے کی بات کہی ہے (مسند اَحمد ٢٢٤٩١)، نیز حضرات ِصحابہ میں سے کسی نے حضور ۖ سے یہ کہا ہو کہ آپ ہمارے لیے اِستخارہ فرمادیں، اِس کا بھی بندہ کو کوئی ثبوت نہیں مل سکااَورنہ فقہاء نے ہی اِس طرح کی بات کی کہ کوئی غیر کسی کے لیے اِستخارہ کررہا ہوتو اُس وقت وہ متکلم کے صیغوں کی جگہ کیا کہے۔ اِس سے کم اَز کم یہ معلوم ہوتا ہے کہ اِسْتِخَارَہْ عَنِ الْغَیْرِ (کسی دُوسرے کا اِستخارہ کرنے) کا اَسلاف میں کوئی وجود نہ تھا یا یہ کہ وہ کسی نہ کسی اعتبار سے معاملہ سے متعلق ہوتے تھے، اِس صورت میں دَرحقیقت یہ اِسْتِخَارَہْ عَنِ الْغَیْرِ (کسی دُوسرے کا اِستخارہ کرنا)نہیں بلکہ اِسْتِخَارَہْ عَنِ النَّفْسِ (خود ضرورت مند کا اِستخارہ) ہو جائے گا ،لہٰذا بعض حضراتِ علماء نے یہ نقطۂ نظر بھی بیان کیا ہے کہ اِسْتِخَارَہْ عَنِ الْغَیْرِ دَرحقیقت اِسْتِخَارَہْ عَنِ النَّفْسِہے کیونکہ وہ شخص اِس معاملہ کو کسی اعتبار سے